امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے کارنامے 682

جمہوری جنگ

پاکستان میں حقیقی جمہوریت کی ایک نہ رکنے والی جنگ چھڑ گئی ہے اس جنگ کے مثبت نتیجے پر ہی جمہوریت کی عمارت تعمیر ہوسکے گی۔ قانون بنانے والے ہی خود کو قانون کا جواب دہ ہونے کی پہلے مثال پیش کریں گے۔ وہ دوسروں کے مقابلے میں خود اپنے ہی بنائے جانے والے قوانین کا سب سے زیادہ احترام کریں گے۔ جی ہاں میں جس جنگ کی بات کررہا ہوں، وہ احتساب عدالت کے وہ مقدمات ہیں جو اس ملک کے سب سے زیادہ طاقتور خاندان کے خلاف چل رہے ہیں اور وہ طاقتور خاندان کسی بھی حالت میں نہ ان مقدمات کو ماننے کو تیار ہے اور نہ ہی اس کے نتائج کو۔ اور وہ روزانہ کی بنیاد پر عدلیہ اور ججوں کی تضحیک اور انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اب یہ مقدمات اور اس کے نتائج پر ہی ملک میں حقیقی جمہوریت کے استوار کئے جانے کا دارومدار ہے۔ ملک میں پہلی بار ریاستی ادارے درست سمت پر چلتے ہوئے جمہوریت کو اس کے اصل وارثوں یعنی جہور تک پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ حال ہی میں ہونے والے سینیٹ کے الیکشن اور اس کے نتائج بھی ان تمام قوتوں کے لئے کسی بھی طرح سے نوشتہ دیوار سے کم نہیں جو جمہوریت کو گھر کی باندھی کے طور پر استعمال کررہے تھے۔ یہ نتائج احتساب عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کے نتائج پر بھی کسی حد تک دلالت کررہے ہیں کہ وہ کس طرح کے ہوں گے؟ لیکن کم از کم ہر طرح کے اثر و رسوخ سے پاک ہوں گے۔ جو طاقتور خاندان پاکستان میں جمہوری اقدار سے کھیل رہا ہے وہ خود کو بچانے کے لئے اس وقت ”پنجاب کارڈ“ کا کھلے عام استعمال کررہا ہے وہ اس وقت اپنے ذاتی مفاد کے لئے ”پنجاب کارڈ“ کو پورے پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ وہ ”پنجاب کارڈ“ کے ذریعے سینیٹ کے چیئرمین شپ پر قابض ہونا چاہتا تھا لیکن پاکستان کی اپوزیشن پارٹیوں نے مل کر ان کی یہ کوشش ناکام بنا دی اب پنجاب میں جلسے کرکے ایک ہی راگ باپ، بیٹی الاپ رہے ہیں کہ ہمیں ”کیوں نکالا“ حالانکہ خود انہیںاور ساری قوم کو ان کے نکالنے کی وجوہات معلوم ہیں پھر بھی یہ راگ الاپتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے اپنے ہی حواریوں کے ذریعے بھرے جانے والے پنڈال کو یہ عوامی عدالت کا فیصلہ قرار دیتے ہیں اور فخر سے کہتے ہیں کہ ان کا ”بیانیہ“ کس طرح سے عوام میں مقبول ہو رہا ہے۔ یہ جوتے مارنے کا واقعہ انہیں خواب خرگوش سے بیدار کرنے اور خود فریبی سے باہر نکالنے کے لئے ہی کیا گیا ہے اس کے بعد بھی کوئی اس سحر سے نہ نکلے تو پھر ان جیسے لوگوں کا خدا ہی حافظ ہوتا ہے، مجھے دُکھ ہوتا ہے جب ٹی وی پر بڑے بڑے معتبر صحافی یہ کہتے ہیں کہ میاں صاحب کو عوام کی پذیرائی مل رہی ہے اور حکومت کی نگرانی میں کروائے جانے والے ضمنی الیکشن کے نتائج کو عوامی عدالت کا فیصلہ قرار دیکر اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ سب خود فریبی کے ہی شائبے میں یہ خود کو دھوکہ دینے کے سوا اور کچھ بھی نہیں، جس طرح سے کھلونا نما بندوقوں سے شکار نہیں کیا جا سکتا اسی طرح سے سیاسی چالبازیوں اور بیانیوں سے عدالتوں میں چلنے والے فوجداری مقدمات کو بھی جیتا نہیں جا سکتا وہ مقدمات قانونی تقاضوں کی تکمیل کے بعد ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچے گے اور اب تک کی کارروائی میں یہ ہی بات سامنے آئی ہے کہ حکمران خاندان کے پاس اپنے بے گناہی کا کوئی ایک بھی ثبوت نہیں اسی لیے وہ کبھی سازش، کبھی سیاسی انتقام اور کبھی جمہوریت کو خطرے کی اصطلاح استعمال کرکے ملکی عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں یہ منی لانڈرنگ اور قومی دولت کو لوٹنے کا سیدھا سادہ مقدمہ ہے جسے سیاسی رنگ دے کہ خود کو مظلوم اور سیاسی شہید ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔ مجھے دلی طور پر افسوس ان دانشوروں اور صحافیوں پر ہو رہا ہے جو سب کچھ جاننے کے باوجود اس کھیل کا حصہ بنے ہوئے ہیں، اپنے ہی عوام کو گمراہ کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں وہ اس طرح سے خود بھی اعانت جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ میڈیا کا کام تصویر کا صحیح رُخ عوام کو دکھانا ہے تاکہ عوام کسی دھوکے کا شکار نہ ہو لیکن افسوس یہاں تو سب اس کے برعکس ہو رہا ہے، میں جب اس طرح کی باتیں کرتا ہوں تو ہمارے صحافی بھائی بھی مجھے جی ایچ کیو کا نمائندہ کہتے ہیں حالانکہ میں اپنے پورے پیشہ ورانہ مدت کے دوران ایک بار بھی جی ایچ کیو نہیں گیا اور نہ ہی کبھی ان کے کسی نمائندے سے کوئی راہ و رسم رکھے۔ لیکن میرے بہت سارے دوستوں کو یہی غلط فہمی ہے، میری سوچ اور جی ایچ کیو کی سوچ ایک ہوسکتی ہے لیکن میں ان کا کارندہ نہیں، مجھے جو سمجھ آتا ہے وہ لکھ ڈالتا ہوں اس وقت مجھے حکمراں خاندان اس ملک کے لئے سب سے بڑے سیکیورٹی رسک نظر آتے ہیں تو میں نے ایک بار نہیں متعدد بار ان ہی سطور میں لکھ ڈالا اور اب اس میں ڈھکی چھپی کون سی بات رہی، کیا وہ اپنے ہی اداروں کے خلاف لوگوں کو اکسا نہیں رہے ہیں؟ پانچ ججوں کا نام لے کر لوگوں کو ان سے بدلہ لینے کا عہد نہیں لے رہے ہیں؟ یہ کھلی بغاوت اور سول نافرمانی نہیں ہے تو اور کیا ہے۔۔۔؟ اور کیا کسی ملک میں اس کی کوئی مثال ہو سکتی ہے کہ جہاں کا تین بار وزیر اعظم رہنے والا اپنے ہی ملک کے اداروں کے خلاف جلسہ جلوس نکالے اور لوگوں کو ورغلائے، دکھ ہوتا ہے اس طرح کی سوچ اور حرکتوں پر اور اس طرح کے لوگوں کی وکالت اور حمایت کرنے والے صحافیوں اور دانشوروں پر۔ لیکن کیا کیا جائے یہ خداداد پاکستان ہے یہاں سب کچھ چلتا ہے اس لیے کہ خود حکومت ہی ریاست کی دشمن بن چکی ہے جب ریاست اور حکومت آپس میں دست و گریباں ہوں تو وہاں کی عوام ذہنی خلفشار کا شکار ہو جاتی ہے اور وہ پھر حکومت اور ریاست میں فرق کرنا بھول جاتی ہے جس طرح سے ایک زمانے تک لوگ آغا شاہی کو ہی وزارت خارجہ خیال کرتے تھے اس طرح سے نواز شریف 35 برسوں سے حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں، لوگ انہیں ہی ریاست خیال کرتے ہیں، عوام کو ان صحافیوں اور دانشوروں کو ہی اپنے کردار پر غور کرنا چاہئے کہ وہ کس ڈگر پر چل رہے ہیں۔ کیا یہ ڈگر ملک کی سلامتی و فلاح کے لیے بہتر ہے یا پھر زہر قاتل۔۔۔؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں