Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 402

جنگل کا قانون

ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب ہر طرف بادشاہت کا دور دورہ تھا۔ بادشاہت تو آج بھی کئی ممالک میں ہے لیکن یہ اس دور سے بہت مختلف ہے۔ اس وقت چھوٹی بڑی بے شمار ریاستیں تھیں جہاں حکومت کرنے والا صرف ایک شخص ہوتا تھا جو بادشاہ کہلاتا تھا۔ بڑی اور طاقتور سلطنت کے بادشاہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر حملہ بھی کرتے تھے اور ان کو اپنا طابع بنا لیتے تھے۔ رعایا کے تمام حقوق بادشاہ سلامت کے پاس ہوتے تھے اور وہ سیاہ سفید کا مالک ہوتا تھا۔ وہ چاہے تو کسی کو انعام و اکرام سے نوازے اور چاہے تو گردن اڑا دے۔ بادشاہ کے منہ سے نکلی ہر بات قانون کا درجہ رکھتی تھی۔ اسی مناسبت سے شیر کو بھی جنگل کے بادشاہ کا لقب دیا گیا ہے۔ گو کہ انسانوں میں بادشاہت کی وہ شکل نہیں رہی ہے لیکن جنگل میں ابھی بھی شیر کا پرانا قانون چلتا ہے۔ جنگل کا بادشاہ جو کہ جنگل کا طاقتور ترین جانور ہے، وہ جنگل میں اپنی من مانی کرتاہے، تمام جانور اس سے خوفزدہ رہتے ہیں، جب وہ دھاڑتاہے تو تمام کمزور جانور خوف سے چھپ جاتے ہیں، وہ جب شکار کرتا ہے تو جب تک اپنا پیٹ نا بھر لے کوئی دوسرا جانور اس کے قریب نہیں آسکتا۔ تمام جانور دور کھڑے دیکھتے رہتے ہیں اور جب شیر اپنا پیٹ بھر کر چلا جاتا ہے تو دوسرے جانور بچے کھچے پر ٹوٹ پڑتے ہیں، ان میں بھی جا طاقتور ہوتے ہیں وہ کمزوروں کو قریب نہیں آنے دیتے۔ آخر میں کمزور جانوروں کو یا تو ملتا ہی نہیں اور گر ملتا ہے تو بہت تھوڑا ملتا ہے۔
جو جتنا طاقت ور ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ چھین لیتا ہے۔ جنگل میں اصول قانون پابندی کچھ نہیں ہوتا اور یہی جنگل کا قانون ہے اور جب ایسی صورت حال آج کسی ملک میں نظر آنا شروع ہوتی ہے تو اس ملک و قوم کا زوال شروع ہو جاتا ہے کیونکہ جنگل اپنے قانون کی وجہ سے جو کہ لاقانونیت، بے اصولی اور طاقت پر مشتمل تھا، ہمیشہ جنگل ہی رہا، اگر یہی قانون کسی انسانوں کے ملک میں رائج ہو جائے تو ایک دن وہ بھی جنگل ہو جاتا ہے۔ وہ دور بھی کامیاب نہ رہ سکا جو بادشاہت کا دور تھا، طاقت کا دور تھا، دور بادشہات میں نا سمجھ بادشاہ بھی گزرے اور عقل مند بھی، عیاش بھی آئے اور دین دار بھی، اپنی اپنی سمجھ سے یا تو رعایا اور ملک کا بیڑہ غرق کیا یا پھر ملک کو بھی ترقی دی اور رعایا بھی خوش حال ہو گئی۔ کچھ اپنی رنگ رلیوں میں مصروف رہے، ملک یا تو تباہ ہو گئے یا کسی اور قوم کے قبضے میں چلے گئے۔ وقت گزرتا رہا اور لوگوں نے محسوس کیا کہ اپنی اور ملک کی تقدیر کا فیصلہ کسی ایک شخص کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہئے۔ لہذا تبدیلیاں آنا شروع ہو گئیں۔
اختیارات کسی ایک شخص کے ہاتھ میں نہیں رہے بلکہ مختلف لوگوں کے ہاتھوں میں بانٹے گئے۔ ذمہ داریاں تقسیم کی گئیں، ایک نیا نظام تشکیل پایا اور دنیا کے ایک بڑے حصے پر یہ تجربہ کامیاب رہا۔ قانون طریقے اصول وضع کئے گئے، لوگوں کو برابر کے حقوق دیئے گئے۔ ان کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری لی گئی۔ جو لوگ ابھی تک دیانت داری سے اس راستے پر چل رہے ہیں وہ دنیا کے کامیاب ترین ممالک کی صف میں کھڑے ہیں لیکن جنگل کا قانون ابھی تک کسی نا کسی جگہ موجود ہے کیوں کہ انہوں نے زمانے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ غریب اور کمزور کی کوئی سنوائی نہیں رہی۔ طاقت ور بے رحمی سے کمزور کو کچل دیتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ہے۔ عوام بنیادی ضرورتوں سے محروم رہتے ہیں یہاں تک کہ پانی تک کو ترستے ہیں اور حکمران ایئر کنڈیشنر گاریوں میں گھوم رہے ہوتے ہیں یا دوسرے ممالک کی سیر ان ہی غریب عوام کا حق مار کر کررہے ہوتے ہیں۔
دنیا میں تبدیلیاں آئیں لیکن اس کا اثر ان پر نہ ہو سکا، تبدیلیوں کے اس دور سے پہلے اور اس کے بعد بھی کبھی قبیلوں کے درمیان اور کبھی ممالک کے درمیان جنگیں بھی ہوئیں لیکن ان جنگوں میں بھی اصول قانون اور مذہبی احکامات کو بھلایا نہیں گیا ان جنگوں میں ایک قانون بہت واضح نظر آتا ہے جس میں انسانیت پہلے نظر آتی ہے، دشمن کا کوئی سپاسی نہتا ہو کر ہاتھ اوپر اٹھا لے تو اسے گولی نہیں ماری جاتی بلکہ گرفتار کیا جاتا ہے کیوں کہ اس نہتے سپاہی پر گولی چلانا انسانی حقوق کی پامالی اور مذہب اور قانون دونوں کے خلاف ہے۔ حالانکہ اس سپاہی نے اپنے مخالف ناجانے کتنے سپاہیوں کو گولی کا نشانہ بنایا ہو گا۔ اس کے باوجود اسے گرفتار کرکے قانون کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اسی سے معاشرے کی تہذیب، انسانیت اور قانون کی بالادستی کا پتہ چلتا ہے، ہر ملک میں کچھ شعبے ایسے ہوتے ہیں جن کا فرض اور ذمہ داری عوام کی جان و مال کی حفاظت اور جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی ہے لیکن نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ملک میں جرائم پیشہ افراد کا قلعہ قمع کرنے کے بجائے ان کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں اس حوالے سے پولیس کا محکمہ بدنام ترین ہے۔ راﺅ انوار جن کے اوپر 400 آدمیوں کا قتل ثابت ہو چکا ہے، جعلی پولیس مقابلوں کا پول بھی کھل چکا ہے، آزاد گھوم رہا ہے، عزیر بلوچ کو کس کی سرپرستی حاصل ہے، قانون بے بس ہے، لاچار ہے یا بدعنوان ہے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے سوچنا پڑے گا کہ کون سی بات صحیح ہے۔
آج بھی لوگوں کے فون سے بنائے ہوئے بے شمار کلپ ایسے مل جائیں گے جو پولیس کے غریبوں پر تشدد، رشوت اور بڑے لوگوں کی خدمت کا ثبوت ہیں لیکن یہ ثبوت دیکھنے والے بھی ان کے ساتھ ہیں۔ اس کے بعد رینجرز جس کی تھوڑی بہت عزت تھی لیکن جب ان کا اصلی چہرہ سب کے سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ ان میں انسانیت نام کی کوئی شے موجود نہیں ہے۔ اس نوجوان لڑکے سرفراز کی چیخیں میں ابھی تک نہیں بھولا ہوں۔ جسے سرعام بے وجہ گولی مار کر قتل کردیا گیا اس واقعے کے بعد ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا، پتہ ہے کیوں، اس لئے کہ اس کے بعد طریقہ کار بدل دیا گیا، اب سرعام نہیں مارا جاتا، اٹھا کرلے جاتے ہیں اور کسی ویرانے میں مار کر پھینک دیتے ہیں۔ اس کے بعد فوج کا محکمہ آتا ہے۔ فوجی کسی زمانے میں قابل احترام اور قابل عزت سمجھا جاتا تھا گوکہ میں آج بھی ایسا ہی سمجھتا ہوں، فوج کی عزت اور احترام میں کمی کرنے کا دل نہیں چہاتا۔ لیکن آہستہ آہستہ لوگ بددل ہوتےجارہے ہیں، اس کی وجہ ریٹائرڈ فوجیوں کے نئے نئے اور اہم عہدے اور بے شمار ثبوت کے ساتھ خبریں آج جو لوگوں کا فوج کے بارے میں تاثر قائم ہو رہا ہے کبھی بھی نہیں رہا ان کا مقام اس لئے بلند تھا کہ فوج سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے اور وطن اور وطن میں رہنے والوں کے لئے سینے پر گولی کھاتی ہے۔ یہ قابل احترام اس وقت تک تھے جب تک سرحدوں پر رہے، جب یہ شہروں میں آگئے تو اب آہستہ آہستہ پولیس والے سمجھے جانے لگے ہیں۔ نفرت جب پولیس سے شروع ہو کر فوج تک پہنچ جائے تو حالات نہایت ہی خطرناک صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ہم کتنا بھی فوج کا بھرم رکھیں لیکن حقائق تو ہمیں تکلیف ضرور دیں گے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ نئی حکومت آنے کے بعد بے شمار بدعنوانی کے کیس سامنے آئے جو کہ نئی حکومت خود ثبوت کے ساتھ لے کر آئی ہے، بے شمار بدعنوان قومی دولت کے لٹیرے چور قاتل جن میں سیاست دان بھی ہیں سب پر سے پردہ ہٹ چکا ہے، یہاں تک کہ ان کے چیلے، شرجیل میمن، عزیر بلوچ اور دوسرے بے شمار سب کے جرائم کی فہرست سامنے ہے۔ بڑے بڑے سیاستدانوں پر الزامات لگا کر جیلوں میں ڈالا گیا۔ ایک معمولی سے مجرم عزیر بلوچ راﺅ انوار سے لے کر ملک کے سابقہ وزیر اعظم تک کو بے پردہ کیا جا چکا ہے لیکن ان سب پر مقدمہ چلانے، ان کو سزا دلوانے میں حکومت بالکل بے بس نظر آرہی ہے۔ یہ عذر کہ یہ عدالتوں کا کام ہے حکومت کا نہیں، کس کو بے وقوف بنایا جارہا ہے، کیا کھیل کھیلا جارہا ہے، سب نظر آرہا ہے، چند گدھوں سے تالیاں تو بجوائی جا سکتی ہیں لیکن پوری قوم کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ ایسی حکومت کا کیا فائدہ جو اتنی بے بس ہو کہ عام مجرموں کو سزا نا دلوا سکے۔ جب حکومت اتنی بے بس نظر آئے تو اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت کے اوپر بھی کوئی اور حکومت ہے اور ظاہر ہے کہ پھر سب کا دھیاں فوج کی طرف ہی جاتا ہے اگر حکومت فوج کے ہاتھ میں ہی ہے تو ان تمام مجرموں کو ان کے تمام جرائم کو منظرعام رپ لانے کی ذمہ دار بھی فوج ہی ہے اور اگر ایسا ہے تو یہ کیا کھیل ہے کہ پھر بھی ان لوگوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جارہا ہے۔ یہ ایسا گورکھ دھند ہے جو سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ سمجھ میں یہ تو آچکا ہے کہ ماضی میں جتنی بھی بدعنوانیاں ہوئی ہیں وہ مجرموں سمیت سب کے سامنے ہیں لیکن معمہ یہ ہے کہ ان پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جارہا ہے ان سے لوٹا ہوا مال کیوں نہیں لیا جارہا ہے اور ان کو سزا کیوں نہیں ہو رہی، کیوں؟ کیوں؟ کیوں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں