بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 237

جیسی روح ویسے فرشتے

یہ مثال برسوں سے سنتے چلے آئے تھے مگر اب پاکستان کے حکمرانوں کا کیا رونا روئیں۔ عوام کی اخلاقی بدحالی پر ماتم کناں ہیں۔ پاکستان کے شہر جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ”لاہور نہیں دیکھا تو پیدا ہی نہیں ہوئے“ جیسے بڑے شہر کے باسی کس قدر چھوٹی ذہنیت رکھتے ہیں۔ حیرت ہے کہ ایک اکیلی خاتون جو ٹک ٹاک بنا رہی تھی، اسے چہار جانب سے گھیر کر عوام کے جم غفیر نے جو کچھ کیا وہ قابل مذمت بھی نہیں لگتا۔ ہم بحیثیت قوم اخلاقی طور پر اور اجتماعی طور پر اس قدر گر چکے ہیں کہ عوام کے جم غفیر میں کسی میں اتنی اخلاقی جرات نہیں تھی کہ وہ اس خاتون کی حرمت کی خاطر ان شیطانوں کے سامنے آجاتا جو اس اخلاق سے گری حرکت کے مرتکب ہوئے۔ اکیلی خاتون کے بدن کو جس بیدردی سے نوچا، دبوچا گیا اسے تو لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ ہم اپنے بچوں کے ہمراہ ایک غیر اسلامی ملک میں رہائش پذیر ہیں۔ جہاں ہمارے بچے اور بچیاں محفوظ ہیں اور ایک ایسا ملک جو دین اسلام کی بنیاد پر بنا وہاں کے عوام خواتین کی حرمت اور ناموس کی پاسداری کرنے کے بجائے ہوس کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہو چکے ہیں۔ کہا تو یہ جاتا ہے کہ خواتین کو سنسان جگہ پر جانے سے پرہیز کرنا چاہئے اور گھر سے نکلنا پڑے تو ایسے راستوں سے جائے جہاں لوگوں کا رش ہو مگر اب تو یہ بات بھی ہم مسلمانوں نے جھوٹی ثابت کردی۔
پاکستان کی بیٹی عائشہ اکرم جنہوں نے جشن آزادی پاکستان کی خوشیاں منانے کے لئے اسی مناسبت سے کپڑے سلوائے اور یادگار پاکستان پر گئیں تو لوگوں نے گھیر لیا اور جس کا جہاں ہاتھ پڑا وہاں سے اس کے بدن کو جھنجھوڑا۔ ہم دلگرفتہ ہیں کہ ابھی تک نورمقدم کا کیس اپنے انجام تک نہیں پہنچا مگر اس کے بعد کئی ایک واقعات جنم لے چکے ہیں اور اب یہ کھلے عام کھلی شاہراہ پر جس طرح لوگوں نے اس حوّا کی بیٹی کی بے حرمتی کی وہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ایسے تمام پاکستانیوں کے لئے جو نہ صرف پاکستان میں رہتے ہیں یا وہ جو بیرون ملک مقیم ہیں اور جن کے عزیز رشتہ دار پاکستان میں مقیم ہیں کس ذہنی کرب اور اذیت میں مبتلا ہیں، یادگار پاکستان وہی جگہ ہے جہاں 23 اگست کو قرارداد پاکستان منظور ہوئی اور جہاں سے ہم عوام کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ کشمیری اور دنیا بھر میں مسلمان بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر آواز اٹھاتے ہیں مگر دوسری جانب ہم اپنے ہی ہم وطن ایک لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ صد افسوس یہ ہے کہ وہاں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو اسے اپنی ماں، بیٹی اور بہن کی نظر سے دیکھ لیتا اور اس کے پھٹے کپڑوں اور برہنہ بدن کو ڈھانپ دیتا۔ آج کا پاکستان کس قدر ذہنی پستی کی جانب رواں دواں ہے۔ ہم اپنے حکمرانوں پر تو انگلی اٹھاتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ ”جیسے عوام ہوں گے ویسے ہی حکمران“ اللہ کی طرف سے اُن پر معمور کئے جائیں گے، اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں