عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 446

جے آئی ٹیز رپورٹس کا طوفان

آج کل جے آئی تیز اور چینل کی بندش ہی موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور دونوں کے حوالے سے عمران خان کی حکومت پر تنقید کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے جب کہ اس سارے معاملات کے دوران بھارتی تخریب کار ایجنسی ”را“ کی بزدلانہ کارروائیاں بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے کمیشن کی خفیہ رپورٹوں کو جاری کرنے میں جس بہادری کا مظاہرہ کیا اس کے بعد صوبائی حکومتوں کو اپنے صوبوں میں کی جانے والی جے آئی ٹیز کی رپورٹوں کو مزید دبا کر رکھنا مشکل ہو گیا تھا اسی وجہ سے سندھ حکومت کو عزیر بلوچ اور سانحہ بلدیہ کی دبی ہوئی جے آئی ٹیز رپورٹ کو بہ حالت مجبوری منظرعام پر لانا پڑا۔ پہلے تو ان رپورٹ کو عام نہ کرنے پر سندھ حکومت پر تنقید کی جاتی رہتی تھی لیکن اب اس رپورٹ کو منظرعام پر لانے کے بعد بھی ان تنقیدوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ رپورٹ آنے کے بعد تنقید اس لئے کی جارہی ہے کہ یہ وہ رپورٹ ہی نہیں جس کا انتظار تھا اس لئے کہ جے آئی ٹی کی اس رپورٹ میں زیادہ ہی ردوبدل کی گئی ہے اس رپورٹ سے آصف علی زرداری اور ان کی ہشیرہ فریال تالپور، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا ایم این اے قادر پٹیل اور شرجیل میمن کے نام نکال لئے گئے جس کے بعد جے آئی ٹی کی یہ رپورٹ ردی کی ٹوکری ہو گئی ہے۔
وہ سیاسی کردار ہی اس رپورٹ سے حذف کر لئے گئے جس کا ذکر عزیر بلوچ نے نہ صرف کیا تھا بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ ان کی ایماءپر اس نے قتل کی وارداتیں کی تھیں اور اس طرح کا ایک اعترافی بیان وہ مجسٹریٹ کی موجودگی میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت پہلے ہی ریکارڈ کروا چکے ہیں جب کہ وفاقی وزیر علی زیدی خود پارلیمنٹ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ عزیر بلوچ کے جے آئی ٹی میں آصف علی زرداری، فریال تالپور، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور قادر پٹیل کے نام شامل ہیں اس لئے اب کنفیوژن پیدا ہو رہی ہے کہ عزیر بلوچ کی یہ کون سی والی جے آئی ٹی رپورٹ ہے جو سندھ گورنمنٹ نے پبلک کی ہے جس میں کسی سیاستدان کا نام ہی نہیں ہے اور اس طرح سے تو اس جے آئی ٹی کے ذریعے سندھ حکومت کو عزیر بلوچ کے تمام جرائم سے بری الزماں قرار دے کر کلین چٹ دے دی گئی ہے حالانکہ عزیر بلوچ ابھی حراست میں ہے اور ان سے کوئی بھی ایجنسی عدالت کے حکم پر بیان لے کر اس جے آئی ٹی کی حقیقت معلوم کر سکتی ہے لیکن قانون کے ماہرین کا کہنا ہے اوّل تو جے آئی ٹی کی خود کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی اگر اس میں کسی سیاستدان کا نام آ بھی جائے تو اس رپورٹ کو ان کے خلاف کسی عدالت میں شہادت کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
اگر ماہرین قانون کی ان باتوں کو من و عن مان بھی لیا جائے تو پھر کیا وجہ ہے کہ سندھ حکومت نے جے آئی ٹی کی رپورٹ میں ردوبدل کی ہے؟ اور اسے پبلک کرنے میں اتنی تاخیر سے کیوں کام لیا؟
یہ وہ جواب طلب سوالات ہیں جس سے شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ کالم کی اشاعت تک یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ وفاقی وزیر علی زیدی اس سلسلے میں منگل والے روز پریس کانفرنس کریں گے اور وہ اس حقیقت سے پردہ اٹھائیں گے کہ عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ میں ردوبدل کی گئی ہے اور سیاستدانوں کے نام اس رپورٹ میں سے حذف کئے گئے ہیں۔ ممکن ہے وہ جے آئی ٹی کی اصل رپورٹ بھی میڈیا کے حوالے کر دیں غرض عزیر بلوچ اور سانحہ بلدیہ ٹاﺅن کی جے آئی ٹی رپورٹ دونوں ہی عمران خان کی حکومت کے لئے پریشانی پیدا کررہے ہیں اس لئے کہ ان دونوں رپورٹوں کے زد میں خود ان کے دو بڑے اتحادی آرہے ہیں اور حکومت کی کوشش ہو گی کہ وہ کسی بھی وجہ سے اپنے اتحادیوں کو ناراض نہ کرے۔
ایک ٹی وی چینل کے بندش سے پہلے ہی چوہدری برادران اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں جب کہ چوہدری شجاعت حسین نے تو وزیر اعظم عمران خان کو ایک خط بھی لکھا ہے اور انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ میڈیا والوں کے خلاف کارروائی کا سلسلہ بند کروادیں اور کہا گیا ہے کہ وزیر اطلاعات سے کہیں کہ وہ میڈیا والوں سے مذاکرات کرکے ان کے مسائل حل کروائیں۔ یہ وہ تمام تر صورتحال ہیں جس کی وجہ سے عمران خان کی حکومت پر ایک بار پھر ان کے اتحادیوں کی جانب سے دباﺅ بڑھنے کا خدشہ ہے اور خدشات و تحفظات دور نہ ہونے کی صورت میں اتحادیوں کی جانب سے عمران خان کو دوبارہ حکومت چھوڑنے کی دھمکی دی جاسکتی ہے اس لئے عمران خان کو چاہئے کہ وہ سارے کے سارے معاملات خوش اسلوبی سے حل کروائیں۔ اتحادیوں کو اعتماد میں لے کر ان کی جائز شکایتوں اور تکلیفوں کا ازالہ کریں اور ایسے تمام لوگوں کے خلاف کارروائی کریں جو اپنی حرکتوں سے حکومت اور ان کے اتحادیوں کے درمیان غلط فہمی پیدا کرکے اس طرح کی صورتحال پیدا کرتے ہیں ایسے لوگوں کا تعلق چاہے حکمران پارٹی سے ہو یا پھر بیورو کریسی سے ہو ان سب کے کان کھینچنے اور مروڑنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کی زہریلی شرارت نہ کرے جس سے حکومت کے گرنے اور ملک میں افراتفری پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔ اس لئے کہ نہ تو حکومت اور نہ ہی ملک اس طرح کے کسی بھی صورتحال کی متحمل ہو سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں