عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 126

خطرناک راﺅنڈ شروع

پاکستان میں بالاخر خطرناک کھیل شروع ہو گیا ہے۔ شریف خاندان کا ملکی اسٹیبلشمنٹ سے ہنی مون کا پریڈ ختم ہو گیا اور بلی تھیلے میں سے باہر نکل آئی اور شریف کیمپ کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ پر بالخصوص اور وطن عزیز پر بالعموم توپ کے گولے پھینکنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ سی بی آر کے ذریعے اہم ترین ریکارڈ کا نکالے جانا اور اس کے بعد اربوں کی پراپرٹی اسکینڈل کا منظرعام پر لائے جانا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ دونوں جانبوں سے ہی ایک دوسرے کی کمزوریاں سامنے لائی جارہی ہے اور عمران خان کو ایک بہترین اور دلچسپ تماشا دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جس سے وہ یقیناً مستفیض بھی ہو رہے ہیں اور ان کے ساتھ پوری پاکستانی قوم بھی اس صورتحال سے محظوظ ہو رہی ہوگی اور قوم کو اب سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس سعید کھوسہ کے وہ تاریخی ریماکس شدت کے ساتھ یاد آرہے ہوں گے جو انہوں نے شریف خاندان کے لئے گارڈ فادر اور سلین مافیا کے استعمال کئے تھے۔ سعید کھوسہ کے وہ الفاظ وہ ریمارکس پوری طرح سے درست ثابت ہو رہے ہیں کہ کس طرح سے شریف خاندان نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ کس طرح سے پاکستان کی حکومت کو انگلیوں پر نچوا رہے ہیں اور اپنے مرضی کا آرمی چیف لانے کے لئے آئین اور جمہوریت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں یعنی ایک خطرناک راﺅنڈ خاندان شریفیہ نے شروع کردیا ہے وہ ایک طرح سے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اس ملک سے کھلواڑ کررہے ہیں۔ وہ کھل کر میدان میں آچکے ہیں اور ہر کسی کی کمزوری کو اس کی بلیک میلنگ کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ اب یہ بات روز روشن کی طرح سے عیاں ہو چکی ہے۔
صحافی ارشد شریف شہید کے قتل اور خود عمران خان پر قاتلانہ حملے کے ماسٹر مائنڈ کون تھے، اب تو خود ان کے اپنے گھر کے لوگوں نے بھی ان کے راز افشاءکرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس کی وجہ سے خاندان شریفیہ پریشان ہے جس کا زندہ ثبوت پورے ٹبر کا لندن سے سیر سپاٹے کے لئے یورپ جانا ہے حالانکہ لندن سے سب کا با جماعت نکلنے کی اصل وجہ کچھ اور ہے اور اس کا علم بھی پوری قوم کو ہے گرچہ پاکستان کا بکاﺅ مال میڈیا کو ہی ساری صورتحال کا علم ہے مگر وہ اس وقت اپنی تجوریوں کو بھرنے کی وجہ سے خاندان شریفیہ کے ترجمان کا کردار ادا کررہی ہے اور قوم کو بہت ہی بری طرح سے اس وقت گمراہ کررہی ہے۔
اسحاق ڈار جو وزیر خزانہ ہے وہ خود ہی پلاٹ اسکینڈلز کو سی بی آر سے لیک کرنے کے موخذ ہیں اور خود ہی انکوائری کروانے کا اعلان کررہے ہیں یعنی پوری طرح سے قوم کو اس وقت ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگا کر دوڑایا جارہا ہے۔ ملک اس وقت نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اور خاندان شریفیہ انی لوٹی ہوئی دولت کو بچانے کے لئے دشمنوں کا آلہ کار بنا ہوا ہے۔ یہ ہی صورتحال ان تمام سیاسی جماعتوں کا ہے جو اس وقت حکومت میں شامل ہے لیکن دوسری جانب سے بھی جو زوردار ردعمل آیا ہے اس نے ہی خاندان شریفیہ کے چاروں طبق روشن کردیئے ہیں اور اب وہی آرمی چیف بنے گا جو اسٹیبلشمنٹ چاہے گی اور ویسے بھی یہ کام حکمرانوں کا نہیں ہونا چاہئے جس طرح سے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس اب سینارٹی کی وجہ سے خودبخود بن جاتا ہے اسی طرح سے آرمی چیف کو بھی سنیارٹی کے بناءپر خود ہی بننا چاہئے اسی میں سیاستدانوں کی شمولیت سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں۔ وہی ذاتی پسند نا پسند کے بناءپر جونیئر کو سینئر پر ترجیح دیتے ہوئے کسی کو بھی نوازتے ہوئے آرمی چیف بنا دیتے ہیں جس کی وجہ سے سینئر کو گھر بھجوانا پڑتا ہے اور فورس کا ایک بھاری نقصان ہوتا ہے اور ڈسپلن کو ایک الگ جھٹکا لگتا ہے لہذا اب جو بھی نیا آرمی چیف آئے وہ سب سے پہلے حکمرانوں کے ساتھ مل کر یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردے اور اس کے ساتھ ساتھ فوج کا ملکی سیاست سے عمل دخل کو بھی ختم کردیا جائے اور نہ ہی کسی سیاسی ونگ کو باقی رکھا جائے اسی میں ہی پاکستان اور خود افواج پاکستان کی سلامتی فلاح و بہبود مضمر ہے کیونکہ ایک مستحکم پاکستان کے لئے ایک مستحکم فوج کا ہونا بے حد ضروری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں