یہ حقیقت ہے کہ اگر ہم دوسروں کی خوبیوں اور اپنی خامیوں پر نظر رکھیں تو یقیناً اچھی شخصیت کے مالک بن سکتے ہیں مگر زمانہ الٹی چال چلنے میں بازی لے گیا ہے اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اپنے مقرر کردہ پیمانے سے جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زندگی ایک تلخ حقیقت ہے اور ابن آدم نے اپنی پوری توجہ دنیا پر مرکوز کر دی ہے۔ ایک دوسرے کو بچھاڑنے کے چکر میں انسانیت کے اصولوں کو پامال کرنا کھیل سمجھتے ہیں۔ پانی پاکستان کے بعد مختلف قسم کی لیڈرشپ سے اہلیان پاکستان کا واسطہ پڑا ہے مگر قوم کو سہانے خواب دکھا کر بار بار حصول اقتدار کا اپنا خواب شرمندہ تعبیر کرنا اپنی خواہش اور مراد ہوس زر اور پاکستان پر مستقل اپنا اور اپنے خاندان کے قبضے کو ترجیح دینا ان لوگوں کا مقصد حیات رہا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستانی قوم ایک زندہ قوم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے جذباتی پن میں حد سے بھی گزر جاتی ہے اور راہزنوں کو لیڈر اور کبھی لیڈر کو راہزن بنانے میں کمال مہارت کے ساتھ اپنے ووٹ کا غلط استعمال کرکے ووٹ کے تقدس کو پامال کر دیتی ہے اور یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ انہیں اس کی پرواہ نہیں ہے کہ ہم کس کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں۔ یہ صرف انتخابی نشان اور بھیجنے والے کو دیکھ کر بڑی بہادری کے ساتھ مجبوری کا دامن تھام کر بہت سے جرائم پیشہ، کرپٹ اور لینڈ مافیا کو پاکستان کی اسمبلیوں میں بھیجنے کا سبب بنتے ہیں اور پھر پاکستان کی تقدیر ان کے ہاتھوں میں آ جاتی ہے اور تماشا شروع ہو جاتا ہے پھر بھرے بریف کیس کے بدلے اپنا نشان دینے والے ان کے بل بوتے پر طاقت کے مزے لوٹتے اور پاکستانی قوم اور اداروں کو بھی بلیک میل کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ پیسے کے بل بوتے پر سازشوں کے ذریعے اموشنل بلیک میلنگ کرکے پاکستان کے عوام کو بے وقوف بنانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ نتیجہ یہ کہ پاکستان بنانے والے دربدر ہوتے ہیں اور پھر ہمارے بزرگوں کے خون سے بننے والے ملک میں شور اٹھتا ہے۔ کبھی مائنس ون، کبھی مائنس ٹو اور کبھی مائنس تھری۔
خدارا اب پاکستان کی تقدیر کے ساتھ یہ کھلواڑ بند کریں۔ قوم کو بھوک کے گرداب میں پھنسا کر ان کی بے بسی پر سیاست کرتے ہیں۔ پارٹیاں الگ الگ مگر پاکستان سے لوٹے ہوئے مال اور اداروں میں کرپشن کی جب بات ہوتی ہے تو سب کے تانے بانے آپس میں مل جاتے ہیں اور اندر سے ایک دوسرے کے بھائی وال نکل آتے ہیں اور ان کے سامنے ہر ادارہ بے بس ہو جاتا ہے۔
میں کسی خاص جماعت کی نہیں ہر شخص کی بات کررہا ہوں جنہوں نے پاکستان میں ٹیکنیکل طریقے سے لوٹ مار کا بازار گرم رکھا اور قوم کو فاقوں پر مجبور کر دیا۔ ملک دن بدن مقروض ہوتا جارہا ہے۔ ڈرو اس دن سے جب پاکستان کے بے بس عوام طاقتور بن کر ہر بڑے کے گریبان پر ہاتھ ڈالیں گے اور زبان زد عام ہو گا کہ
کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے
ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے
ایک سازش کے تحت اداروں کو بے توقیر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہمارے رہبر آپس میں دست و گریباں ہونے میں ذرا جھجھک محسوس نہیں کرتے جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام لیڈرشپ کو اندر سے ہمیں نکالنا ہو گا۔ پچھلی غلطیوں کا ازالہ کرکے قائد اور اقبال کے پاکستان میں ایسی قانون سازی کرنا ہو گی جس سے اقتدار میں صرف محب وطن پاکستانیوں کا راستہ ہموار ہو۔ کوئی بھی ایسا شخص جس کی اولاد، کاروبار، جائیداد یا دولت ملک سے باہر ہو اسے پاکستان پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہ ہو۔ پاکستان کو وٹنے پر چائنہ کی طرز پر قانون سازی ہونی چاہئے۔
دنیا میں بہت کپتان آئے اور چلے گئے مگر عمران خان کو اللہ کریم نے مملکت خداداد پاکستان کا وزیر اعظم بنا دیا جو پاکستان میں احتساب اور انصاف کے نعرے کے ساتھ مقبول ہوا۔ پاکستان میں احتساب اور اس سے بھی زیادہ انصاف کی تشنگی بڑھتی جارہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ غیر محسوس طریقے سے صوبوں کے اندر نفرت کے بیج اگنا شروع ہو گئے ہیں جو کہ پاکستان کی سالمیت کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ اسلام کی روح کے مطابق ہر مسئلے کا قابل عمل حل تلاش کیا جائے۔ ایشوز کو Defuse کریں۔ کسی کو بھی یہ موقع نہ دیں کہ کوئی ففتھ جنریشن وار کا حصہ بنے۔ بہتر حکمت عملی کے ساتھ فاصلے بڑھانے کی بجائے فاصلے کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں تاکہ پاکستان اپنی منزل پر پہنچ کر دنیا میں اپنا لوہا منوائے۔ کسی کو یہ جرات کرنے کی اجازت نہ دیں کہ پاکستان کے معبر اداروں پر انگلی اٹھائے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان میں وہ ہونے جارہا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مگر یہ سب کچھ کرنے کے لئے اچھی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ مہنگائی، بے روزگاری اور اقرباءپروری کے تاثر کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے قومی اداروں میں موجود مافیاز کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانا ہو گا۔
زمانے کے جو معتبر ہیں وہ خود لرزتے ہیں آئینوں سے
کوئی تو ان کا حجاب الٹے ہم ان کا یوم حساب دیکھیں
644