”بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ ہو گیا“ کے مشہور زمانہ کہاوت پر ان دنوں بھارت کا کردار صادق آرہا ہے۔ بھارت کی خارجہ سیاسی نے اس کہاوت میں پوری طرح سے جان ڈالتے ہوئے اسے دوبارہ سے محترک کردیا ہے تاکہ دنیا کو بھارت کے موجودہ کردار کو سمجھنے میں آسانی ہو کہ کس طرح سے بھارت موجودہ سپرپاور امریکہ اور ابھرتے ہوئے سپرپاور چائنا کی چپقلش میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے خود اپنی مشکلات میں اضافہ کرتا چلا جارہا ہے۔ امریکہ کی دوستی یا اس سے اندھی وفاداری کے عوض وہ عالمی تنہائی کے علاوہ اپنی سلامتی کے لئے بھی خطرات پیدا کرتا جارہا ہے۔ امریکہ اور چین کی عملاً جنگ ہوتی ہے یا نہیں مگر چین نے بھارت کے خلاف خاموشی سے جنگ کا طبل بجا کر اس کے چاروں شانے چت کر دیئے ہیں جس کے بعد سے بھارت میں دفاعی لحاظ سے کئے جانے والے اجلاسوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم مودی اور ان کی ٹیم کے سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کیا کرے؟ کس طرح سے حقیقت کو جھٹلائے کہ 21 برسوں بعد کوئی غیر ملکی فوج نہ صرف بھارت کے اندر داخل ہو گئی بلکہ بھارت کی بہادر فوج نے بلا کسی مزاحمت یا مقابلہ کے ان کا استقبال کیا۔ اور ایک طرح سے اپنا علاقہ کیک کی طرح سے پلیٹ میں رکھ کر حملہ آور فوج کے حوالے کردیا۔ یہ میری یا کسی اور کی اطلاع نہیں بلکہ خود بھارت کے ایک معتبر دفاعی تجزیہ نگار اجے شکلا کی ہے جن کی رائے کو خود بھارت سے زیادہ مغرب میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جن کا کہنا ہے کہ بھارت کی چائنا کے ہاتھوں شکست ہو چکی ہے۔ بھارتی فوج اور چائنیز فوج آمنے سامنے ہے جن چائنیز علاقوں کو اپنا علاقہ کہہ کر بھارت اس پر عرصہ دراز سے غیر قانونی طور پر قابض تھا چین نے اپریل اور مئی کے چار ہفتوں کے دوران خاموشی سے نہ صرف ان علاقوں پر قبضہ حاصل کرلیا بلکہ وہ تو بھارت کے اہم ترین دفاعی علاقے رولٹ بیگ اولڈی ڈاریک روڈ تک پہنچ گیا ہے جس کے بعد سے بھارت کی سلامتی سوالیہ نشان بن گئی ہے؟؟
چائنا گھالوان ویلی اور پینگان لیک تک پہنچ گیا ہے جہاں چین کے دس ہزار سے زائد پبلک ریلیس آرمی کے فوجی جدید ہتھیاروں کے ساتھ پہنچ گئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان فلیگ میٹنگ بھی ختم ہو چکی ہے جس سے بھارتی حکومت میں گھبراہٹ اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے اور سیاستدان اس کا ذمہ دار قومی سلامتی کے امور کے سربراہ اجے ڈوول کو ٹھہرا رہے ہیں کہ ان کے غلط مشوروں پر عمل کرنے کی وجہ سے بھارت بند گلی میں داخل ہو گیا۔ اپنے پڑوس میں تنہا ہو کر رہ گیا ہے اور پڑوسی ممالک اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہے۔ یہاں تک کہ نیپتال اور بھوٹان جیسے ممالک بھی اس صورتحال میں اپنا وزن چین کے پلڑے میں ڈالنے کے لئے بے تاب نظر آرہے ہیں۔
بنگلہ دیش نے اس سارے معاملے سے خود کو الگ تھلگ رکھا ہے جب کہ اس ساری صورتحال کے دوران بھارت کو اس امریکہ کی جانب سے بھی کوئی اچھا پیغام نہیں ملا جس کی خاطر بھارت نے یہ سب کچھ کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھارت اور چین کے درمیان جاری کشیدگی میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے جسے بھارتی حکومت نے مسترد کردیا اس طرح سے بھارتی حکومت کو امریکہ کی نظروں میں اپنی قدر منزلت کا بھی اندازہ ہو گیا کہ جس کی خاطر اس نے پڑوسیوں تک سے پنگا لینے سے گریز نہیں کیا۔ آج اسی امریکہ نے بھارت پر آئے اس مشکل گھڑی میں کس طرح سے پینترہ بلا۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا۔ طالبان سے مذاکرات کے معاملے میں بھی امریکہ نے بھارت کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ بھارت کی درخواست کے باوجود کے اسے بھی اس مذاکراتی عمل میں شامل کیا جائے اس پر امریکی نمائندے خلیل زلمے نے یہ کہہ کر بھارت کو شٹ اپ کال دے دی کہ اگر وہ طالبان سے مذاکرات چاہتا ہے تو وہ خود ہی اپنے طور پر یہ کرے جس پر قطر میں موجود طالبان کے ترجمان نے بھارت کے کردار کو طالبان کے مذاکرات عمل کے لئے زہر قاتل قرار دیا۔ اس طرح سے بھارت امریکہ کے ہاتھوں بار بار رسوا ہو رہا ہے اور اب کی بار تو خود اس کی سلامتی ہی خطرے میں پڑ گئی۔ پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کا خواہش مند آج خود تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ سیکولر استیٹ سے ہندواتا کا سفر مودی کی شکل میں اب بھارت کو مہنگا پڑ رہا ہے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ غرض چاروں جانب سے بھارت پر بربادی کے بادلوں نے منڈلانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ جس سے بھارت کی سلامتی بہت ہی بری طرح سے ہچکولے کھا رہی ہے۔ آزادی کی تحریکوں کی دبی چنگاریاں کبھی بھی ہواﺅں کے جھونکوں کے ملنے سے آگ کا شعلہ بن سکتی ہے۔ اسی لئے بھارت کی موجودہ حکومت کو ہوش کے ناخن لینا چاہئے اور پڑوس میں چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ بند کرکے ہر ایک کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھائیں اور سات سمندر پار بیٹھے دوستوں سے زیادہ پڑوس کے دشمنوں پر اکتفا کریں جب کہ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ اس طرح کی صورتحال میں اور بھی زیادہ احتیاط سے کام لیں۔ اس لئے کہ بھارتی حکمران اس وقت اپنا ہوش کھو چکے ہیں اور ان سے کسی بھی طرح کے احمقانہ اور بچگانہ حرکت کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ وہ پاکستان کے لائن آف کنٹرول پر کسی بھی طرح کی حرکت کرسکتے ہیں جب کہ بلوچستان میں وہ دہشت گردی کی واردات کرواسکتے ہیں اس لئے کہ وہ چین کے ہاتھوں اٹھائی جانے والی اپنی ذلت و رسوائی کا بدلہ کسی ایسے مخالف سے لینے کی کوشش کریں گے جس سے بھارتی ہندو عوام میں خوشی کی لہر دوڑ جائے اور مودی حکومت کو اپنے ووٹروں پر اعتماد بڑھ جائے۔ اسی وجہ سے یہ وقت پاکستان کا اپنے دفاع کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔ بھارت خود کو دلیر ثابت کرنے کے لئے کوئی بھی بھونڈی حرکت کر سکتا ہے۔ آرمی چیف قمر باجوہ کا عید والے روز لائن آف بارڈر کا دورہ اور جوانوں کے ساتھ عید کی نماز کی ادائیگی بھی اسی سلسلے کی کڑی بتائی جاتی ہے جب کہ پاکستان کے دور اندیش وزیر اعظم عمران خان وقتاً فوقتاً ٹوئیٹر کے ذریعے اس طرح کی ٹوئیٹ کرکے بھارت کے ناپاک عزائم سے اقوام عالم کو باخبر کرتے رہتے ہیں اسی لئے حکومت پاکستان خاص طور سے افواج پاکستان کو اس صورتحال میں زیادہ احتیاط سے کام لینا ہو گا کیونکہ اس کا واسطہ ایک بزدل مگر چالاک اور مکار فوج سے ہے جس سے کسی بھی گری ہوئی حرکت کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔
435