Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 767

دلیل ودلائل اور مسائل

ہماری قوم کے پاس دنیا کے بڑے سے بڑے مسئلے کا حل موجود ہے شرط یہ ہے کہ مسئلہ دوسرے کا ہونا چاہئے۔مسئلے کی وجہ اور حل ثابت کرنے کے لئے دلیل ودلائل سے کام لیا جاتا ہے۔قوم کے پاس ہر بات کی دلیل موجود ہے ،کسی بھی غلط یا صحیح بات کو غلط یا صحیح ثابت کرنے کے لئے ایسے دلائل دیئے جائیں گے کہ ایک ہی وقت میں آپ اس بات کوصحیح بھی مان سکتے ہیں اور غلط بھی مان لیں گے۔ بہرحال جہاں تک دلائل کا تعلّق ہے تو پاکستان بننے سے لے کر آج تک جو کچھ بھی ہوا قوم کے پاس اس کے لئے بھی دلائل موجود ہیں۔بلکہ پاکستان کی بات تو بعد میں ہے پہلی بحث تو اس بات کی ہے کہ ہندوستان میں انگریزوں سے پہلے مسلمان بادشاہوں کا دور اچھّا تھا یا انگریزوں کے آنے کے بعد کا دور اچھّا تھا۔اس کے بارے میں بھی دو رائے ہیں اور دونوں رائے رکھنے والوں کے پاس اس کی دلیل موجود ہے۔ہر مسئلے کا حل تو موجود لیکن جو اپنے بنیادی مسائل ہیں ان کے حل کی طرف سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ۔ہندوستان کی عظیم سلطنت میں مذہب کے لئے جو بھی کام ہوا ۔اس میں نام بادشاہوں کا ہوا لیکن دراصل بادشاہوں نے کچھ نہیں کیا اگر کیا تو اس وقت کے اولیاء کرام نے کیا تھا۔بادشاہوں نے تو حرم خانے بنوائے تھے اور دنیا بھر کی حسین عورتیں ہزاروں کی تعداد میں جمع کی ہوئی تھیں جو کہ آج بھی مسلمان بادشاہوں کا دستور ہے صرف طریقہ ء کار میں تبدیلی آچکی ہے۔انگریز عام انسانوں کی فلاح وبہبود کے لئے بہت کچھ کرگئے تھے۔عام انسان کے جینے کے لئے عمارتیں ،سڑکیں ،پل اور اچھّا نظام دے کر گئے تھے۔جو آج تک انڈیا اور پاکستان دونوں جگہ ہندو مسلمان دونوں کے کام آرہا ہے۔اس کے بعد انگریزوں کا جانا اور ہندوستان کے ٹکڑے انڈیا اور پاکستان کا قیام اس کے بارے میں دو رائے ہیں ،کچھ لوگ پاکستان بننے کی مخالفت میں تھے اور کچھ موافقت میں تھے بلکہ یہ دونوں اشخاص آج بھی موجود ہیں۔اور جو کچھ حالات پاکستان میں پیش آرہے ہیں تو مخالفت کے حامی آج یہ کہتے ہیں۔دیکھا مولانا نے صحیح کہا تھا کہ تم لوگ پاکستان بناتو رہے ہو لیکن اس کا قائم رہنا مشکل ہے۔اور جن حالات کا ذکر کیا تھا وہی پیش آرہے ہیں۔کسی شخص نے یہ کوشش نہیں کی کہ مولانا کی بات کو غلط ثابت کردیا جائے اور اتحّاد،محنت ،محبّت بھائی چارے اور ایمان داری سے اس پاکستان کو ایک عظیم الشان سلطنت میں تبدیل کردیا جائے اس کے بجائے تمام لوگ مولانا کی بات کو سچ ثابت کرنے میں لگ گئے ملک کو بیچ کھاگئے ،چوری بے ایمانی کو اپنا ایمان بنالیا اور کہتے ہیں مولانا صحیح کہتے تھے۔قائداعظم کی وفات دو رائے۔کچھ کہتے ہیں وہ طبعی موت تھی اور کچھ کے خیال میں ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ قائد اعظم سے چھٹکارا حاصل کیا جائے کیونکہ پاکستان بنتے ہی اقتدار کے لئے رسّہ کشی شروع ہوچکی تھی جو کہ آج تک جاری ہے اس کے لئے زمین بیچ دی جائے یا ایمان اور یا پھر اپنے ہی کسی عزیز کو قتل کرنا پڑجائے ۔ بہرحال پھر آہستہ آہستہ مذہب میں ایک کے بعد ایک مسلک کا سر اٹھانا ہر مسلک کا شخص اپنے مسلک کو صحیح ثابت کرنے اور دوسرے کے مسلک کو غلط ثابت کرنے کی دلیل رکھتا ہے۔آپ کسی بھی مسلک والے سے بات کرلیں وہ قرآن شریف کی آیات سے حدیث سے یا کسی بھی طریقے سے ایسے ایسے دلائل دے گا کے آپ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ یا ر کہہ تو صحیح رہا ہے ۔پھر دوسرے مسلک والے کے پاس جائیں گے تو یہی صو رت حال پیدا ہوجائے گی۔پھر یہ سوچ سوچ کر آپ کے سر میں درد ہوجائے گا کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ہے۔قوم مختلف سیاسی پارٹیوں میں بٹی ہوئی ہے اور کوئی بھی شخص اپنے سیاسی لیڈر کو غلط ماننے کو تیّار نہیں ہے اور اس کے لئے اس کے پاس دلیل موجود ہے۔اپنے لیڈر کی ہر احمقانہ،معیوب،مجرمانہ حرکت کو صحیح ثابت کرنے کی بھی دلیل موجود ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے نامی گرامی لیڈر گزرے ہیں ان کی ذہنی صلاحیتوں ان کی قربانیوں اور ان کے وقار کے بارے میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،فی زمانہ ہمارے ملک میں ایسے ایسے لیڈر سامنے آرہے ہیں جن کو دیکھ کر بزرگوں سے سنے ہوئے نوٹنکی کے کھلاڑی ذہن میں آتے ہیں کوئی بھی سنجیدہ موضوع ہو اس میں ناچ رہے ہیں گانے گارہے ہیں ۔مخالفین کے لئے بے ہودہ الفاظ استعمال کئے جارہے ہیں ۔ہر وہ حرکت کی جارہی ہے جسے بہت معیوب سمجھا جاتا تھا ۔اور ان کے حامی ان تمام حرکات کو صحیح ثابت کرنے کی دلیلیں رکھتے ہیں اور آپ حیران رہ جائیں گے کہ وہ مخالفین کی ان ہی حرکتوں کو غلط ثابت کرنے کی بھی دلیل رکھتے ہیں۔ان کا چہیتا لیڈر اگر جلسہ عام میں یہ اقرار کرے کہ اس نے کتنے آدمیوں کا قتل کیا کتنے غبن کئے تو یہ لوگ تالیاں بجائیں گے کہ ان کا لیڈر کتنا بہادر ہے کہ جلسہ عام میں اپنے گناہوں کا اقرار کررہا ہے ہماری قوم غور و فکر کی صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔اپنی ذہانت سے دو منٹ میں صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح ثابت کرسکتی ہے اور اتنی ذہین قوم ملک کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔کسی بھی ملک کی قوم کو اتنا ذہین نہیں ہونا چاہئے۔میرے پاس ذہانت کی کمی ہے اسی لئے میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے ساتھ منسلک نہیں ہوسکتا کیوں کہ اگر میرا لیڈر کسی مقام پر غلط ثابت ہوا تو میں اتنا ذہین نہیں ہوں کہ دلائل سے اسے سچّا ثابت کرسکوں۔ ضمیر کتنی بھی ملامت کرے لیکن مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے اس کا جھنڈا بلند ہی رکھّوں۔لہذا مجھے کہنا پڑے گا کہ یہ غلط ہے اور وہیں پر اس پارٹی میں شامل لوگ میرے اوپر برس پڑیں گے کہ اپنے آدمی کو اپنے ہی لیڈر کو برا کہہ رہے ہو ضرور کسی دوسری پارٹی کے جاسوس ہو۔کیوں کہ اب زمانہ بہت بدل چکا ہے اب تو اپنے ملک میں حرام کی کمائی کو حرام کہنے والا سب سے بے وقوف گردانا جاتا ہے۔اگر کسی سیاسی لیڈر کو ایمان دار کہہ دیا جائے تو الیکشن میں صرف اس کے گھر والے ہی ووٹ ڈالتے ہیں۔کچھ عرصے بعد اپنی مخالف پارٹی کو ہرانے کے لئے جلسوں میں کہا جائے گا کہ اگر آپ نے ہماری مخالف پارٹی کو ووٹ دیا تو ملک سے رشوت کا خاتمہ ہوجائے گا ،پولیس ایماندار ہوجائے گی۔ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کرنے والے کو سخت سزا دی جائے گی۔چوری اور بے ایمانی کرنے کو آپ ترسیں گے اور وہ پارٹی شرطیہ ہار جائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں