708

رائو انوار ‘بہادر بچہ’ ہے، آصف علی زرداری

اسلام آباد: سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے سابق سنیئر سپرنٹنڈنٹ (ایس ایس پی) ملیر رائو انوار کو ایک بہادر بچہ قرار دے دیا۔
ایک نجی ٹی وی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے آصف علی زرداری نے رائو انوار کے حوالے سے پولیس کی 444 ماورائے عدالت قتل کی رپورٹ کو سابق ایس ایس پی کے خلاف قرار دیا۔
اپنے انٹرویو کے دوران انہوں نے راو¿ انوار کی بہادری کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں کراچی کے 54 ایس ایچ اوز میں رائو انوار واحد بہادر شخص تھے جنہوں نے اس وقت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے خلاف سابق وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کی زیرِ نگرانی ہونے والے آپریشن میں حصہ لینے والے 54 ایس ایچ اوز میں سے 53 کو قتل کیا جاچکا ہے جبکہ واحد یہ ‘بچہ’ زندہ ہے۔
پی پی پی کے شریک چیئرمین کا مزید کہنا تھا کہ جیسے ہی ایم کیو ایم اقتدار میں آئی تو رائو انوار روپورش ہوگئے تھے۔
جب پروگرام اینکر نے پولیس رپورٹ کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ رائو انوار 444 ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہیں تو آصف علی زرداری نے انہیں درمیان میں روکتے ہوئے کہا کہ یہ صرف قیاس آرائی ہے، ان کے خلاف 440 درخواستیں کیوں دائر ہیں؟۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومتِ سندھ نے رائو انوار کے خلاف 444 ماوارئے عدالت قتل کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع نہیں کرائی ہے بلکہ یہ رپورٹس سندھ پولیس اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اللہ ڈنو خواجہ کی جانب سے جمع کرائی گئی ہے جنہیں عدالتِ عظمیٰ نے ہی تعینات کیا ہے۔
سابق صدر کا کہنا تھا کہ رائو انوار کے خلاف آنے والی رپورٹ پولیس کے اندر گروپ بندی کا نتیجہ ہے۔
نقیب اللہ محسود کے قتل کیس کا نام لیے بغیر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ‘معاملے کو میڈیا، سماجی رابطے کی ویب سائٹز پر میڈیا بریگیڈ کی مدد سے سنسنی خیز بنایا جارہا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ ایک حقیقت ہے۔
جب پروگرام کی میزبان نے سوال اٹھایا کہ یہ کیسا مذاق ہے کہ ایک مفرور پولیس افسر واٹس ایپ کی مدد سے لوگوں سے رابطے کر رہا ہے جس پر سابق صدر نے جواب دیا کہ رائو انوار نے واٹس ایپ پر ان سے رابطہ نہیں کیا۔
اینکر نے کہا کہ رائو انوار نے واٹس ایپ کی مدد سے آئی جی سندھ کو کال کی، تو آصف علی زرداری نے کہا کہ سندھ پولیس چیف کو ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیز سے کال ٹریس کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
جب اینکر نے آصف علی زرداری سے آئی جی سندھ کی تقرری کے حوالے سے سوال کیا تو سابق صدر نے کہا کہ اے ڈی خواجہ کی تقرری کا معاملہ متنازع ہے، عدالتِ عظمیٰ پہلے ہی متنازع ہے اس لیے میں اس معاملے میں بات کرنا نہیں چاہتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں