682

روبوٹ نرس؛ جاپان میں بوڑھوں کی دیکھ بھال کریں گے

جاپان: روبوٹکس یعنی روبوٹ سازی کی ٹیکنالوجی اور صنعت میں جاپان سب سے آگے ہے۔ ان خودکار مشینوں کا بڑے پیمانے پر استعمال بھی اسی ملک میں ہورہا ہے۔ کار ساز اداروں میں مصروف عمل دیوہیکل روبوٹوں سے لے کر کھلونا روبوٹوں تک زندگی کے متعدد شعبوں میں یہ خودکار مشینیں سرگرم عمل ہوچکی ہیں اور ان کا دائرہ کار وسعت اختیار کررہا ہے۔
طب کے شعبے میں بھی مختلف حیثیتوں اور صورتوں میں روبوٹ مختلف کام انجام دے رہے ہیں۔ اب حکومت کی توجہ روبوٹ نرسوں پر ہے۔ جاپان ان ممالک میں شامل ہے جہاں شرح پیدائش بے حد کم ، 1.46فی خاتون ہے۔ علاوہ ازیں جاپانیوں کی اوسط عمر دنیا بھر میں سب سے زیادہ 83.7 سال ہے۔ یعنی ہر جاپانی اوسطاً چوراسی سال جیتا ہے۔ کم شرح پیدائش اور بلند ترین اوسط عمر کی وجہ سے جاپان میں بوڑھوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔
اسی مناسبت سے ان کی دیکھ بھال کرنے والوں کی ضرورت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت نے بزرگوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری روبوٹ نرسوں کو سونپنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ میل اور فی میل نرسوں کی کمی ہے۔
ایک سبب یہ بھی ہے کہ والدین ستر اسّی سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو اولاد بھی پچاس ساٹھ برس کی ہوجاتی ہے۔ یوں ان کے لیے بھی ناتوانی کے باعث والدین کی مناسب طور سے دیکھ بھال ممکن نہیں رہتی۔ حکومتی پالیسی سازوں کے ذہن میں یہ بات بھی ہوگی کہ بزرگوں کو روبوٹ نرسوں کے سپرد کرنے سے ان کے بچے بے فکر ہوجائیں گے اور پوری توانائی کے ساتھ ملک و قوم کی ترقی کے لیے کوشاں رہیں گے۔
ایک اندازے کے مطابق 2025ء تک جاپان میں عمررسیدہ مرد و خواتین کی دیکھ بھال کے لیے مزید 370000 میل اور فی میل نرسوں کی ضرورت ہوگی۔ اس طلب کو مصنوعی ذہانت سے لیس خودکار مشینوں کے ذریعے پورا کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔
اس مقصد کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے روبوٹ ساز اداروں کے ماہرین ابتدائی طور پر ایسے سادہ روبوٹوں کی تیاری پر توجہ دے رہے تھے جو ناتواں بزرگوں کو بستر سے اٹھ کر وہیل چیئر پر بیٹھنے اور پھر وہیل چیئر سے اٹھ کر کموڈ وغیرہ پر بیٹھنے میں مدد دے سکیں۔ تاہم حکومت اب چاہتی ہے روبوٹ نرسوں میں یہ بھانپنے کی صلاحیت بھی پیدا کردی جائے کہ کب کسی شخص کو ٹوائلٹ جانے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانسڈ انڈسٹریل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے روبوٹوں پر تحقیق کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر ہیروشیا ہیروکاوا کہتے ہیں کہ اس منصوبے کا مقصد نرسنگ اسٹاف پر بوجھ کم کرنا اور گھروں میں رہنے والے لوگوں کی خودمختاری بڑھانا ہے۔ تاہم وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت سے لیس خودکار مشینیں ہر ضرورت پوری نہیں کرسکتیں، البتہ ان کی مدد سے بہت سے کام آسان ہوجائیں گے اور نرسنگ اسٹاف پر بوجھ کم ہوجائے گا۔
ہیروکاوا کے مطابق بزرگوں کو بستر سے اٹھنے میں مدد دینے والے روبوٹ فی الحال جاپان کے آٹھ فی صد نرسنگ ہومز میں کام کررہے ہیں۔ ان کے محدود پیمانے پر استعمال کی دو وجوہ ہیں: ایک تو یہ کہ روبوٹوں کی تیاری پر بڑی رقم خرچ ہوتی ہے، دوسرے یہ کہ لوگوں کی اکثریت اب بھی یہ سوچ رکھتی ہے کہ مناسب دیکھ بھال انسان ہی کرسکتے ہیں۔ پھر یہ کہ معمر افراد بھی روبوٹوں کو اپنے مددگار کے طور پر قبول کرنے میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں۔
بہرحال حکومت نرسوں کی کمی پورا کرنے کے لیے روبوٹوں سے کام لینے کا فیصلہ کرچکی ہے، اور متعدد روبوٹ ساز کمپنیاں خودکار مشینوں کے لیے نرسنگ کو آسان تر بنانے پر کام کررہی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں