ریاست جمہوریہ/عسکریہ پاکستان 132

ریاست جمہوریہ/عسکریہ پاکستان

ریاست پاکستان بتدریج اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ایک فوجی ریاست میں کیسے ڈھلتی گئی اس کی شروعات کے اشارے تو 1948ءکی گرم دوپہر کو ہی آشکار ہوگئے تھے جب ماری پور کراچی کے ہوائی اڈے سے ایک ایمبولینس قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو ان کی بیمار حالت میں زیارت بلوچستان سے آمد پر لے کر روانہ ہوئی اور کچھ فاصلہ طے کرنے کے سبب جب قائد اعظمؒ کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت تھی، انجن کی خرابی کی وجہ سے رک گئی اور حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس ایمبولینس کے ہمراہ کوئی متبادل انتظام نہیں کیا گیا تھا۔ قائد اعظمؒ کے معالج کرنل الٰہی بخش نے اپنی کتاب ”قائد اعظم کے آخری ایام“ میں جو واقعات قلمبند کئے ہیں وہ کافی کچھ بیان کررہے ہیں۔
آئین پاکستان کی رو سے ہر ہر ریاستی ادارہ اپنی حدود میں رہ کر اپنے فرائض انجام دینے کا ذمہ دار ہے۔ قائد اعظمؒ نے پاکستان کے قیام کے ابتدائی دنوں میں ہی یہ واضح کردیا تھا کہ اگر ہر ادارہ اپنے اختیارات سے تجاوز نہ کرے تو پاکستان ایک ایسی حیثیت اختیار کرے گا جہاں عوام کی حکومت ہوگی۔ عوام کے لئے۔ مگر عوام کے بجائے ایک ایسا ادارہ جس کی آئینی ذمہ داری سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ صرف ان حالات میں انتظامیہ کی معاونت کرنا تھا جب ہدایت دی جائے کس طرح ”مقتدرہ“ کی حیثیت اختیار کرتا چلا گیا۔ یہ ایک انتہائی فکر انگیز امر ہے۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی مشاہدات ملتے ہیں کہ فوج نے اپنے لئے راستے حکومتی امور ڈھونڈنے شروع کردیئے تھے۔ زمانہ اوائل میں ہی سرددار عبدالرب نشتر نے قائد اعظم کو ایک نوٹ تحریر کیا کہ بریگیڈیئر ایوب خان مہاجروں کی بحالی سے زیادہ سیاسی امور میں دلچسپی لیتے ہیں جس کے جواب میں قائد اعظم نے فوری طور پر ایوب خان کو مشرقی پاکستان بھیجنے کی ہدایت کی اور یہ کہ وہ وہاں کسی کمانڈ کمیشن پر کام نہیں کریں گے اور نہ ہی بیج لگائی ںگے۔ گویا قائد اعظم نے یہ واضح کردیا کہ فوجیوں کو صرف اپنی ذمہ داریوں پر توجہ مرکوز رکھنی چاہئے۔
تاریخ کے اوراق کے مطابق پاکستان میں سویلین حکومت کے پہلے سازش 1951ءمیں میجر جنرل اکبر کے ہاتھوں وزیر اعظم لیاقت علی خان کے خلاف ہوئی۔ پھر اپریل 1953ءمیں اس وقت کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل غلام محمد نے ایوب خان کی معاونت سے اپنے عہدے سے ہٹایا۔ مورخین کے مطابق اس وقت جو آئین یا دستور زیر ترتیب تھا اس میں گورنر جنرل کے اختیارات میں تخفیف کے ساتھ آرمی چیف کو اس کی مدت ملازمت میں توسیع نہ دینے اور فوج کے حجم کو قومی وسائل میں کمی کے باعث نہ بڑھانے پر سفارشات شامل تھیں۔
پھر ٹھیک پاکستان کے وجود میں آنے کے گیارہ سال بعد 1958ءمیں پہلا مارشل لاءلگا دیا گیا۔ قدرت اللہ شہاب کے مطابق اس وقت آئین کو ملتوی کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں کوئی فوجی افسر اس طرح براہ راست سیاست میں داخل ہوا اور بالاخر ایوب خان نے پاکستان کی صدارت سنبھال لی۔ 1969ءمیں اپنے خلاف مظاہروں سے تنگ آکر ایک دفعہ پھر مارشل لاءکا سماں قائم کیا اور حکومت کی عنان آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کے سپرد کردی۔ 1970ءکے انتخابات کے نتیجے میں ذوالفقار بھٹو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اقتدار میں آئے۔ المیہ مشرقی پاکستان سے متعلق حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ بھی وہاں بنگالیوں کے خلاف آپریشن سے متعلق بھی بہت سی ان کہی باتیں دہرائی ہے۔ بھٹو نے 1973ءکے آئین کی تیاری کے وقت فوج اور بیوروکریسی میں اصلاحات کا تذکرہ کیا اور جمہوری بالادستی قائم کرنے کی شقیں شامل کرنے کی رضامندی دی۔ اس آئین میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں کمی کی گئی اور زور دیا گیا کہ اس آئین میں مارشل لاءقائم ہونے والے تمام وجوہات سے نپٹا جائے گا اور آرٹیکل 127 کے تحت کسی بھی فوجی مداخلت کے عمل پر سزائے موت تجوزی کی گئی۔ بھٹو کو اس اعلان یا ارادے کی سزا جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں پھانس کی صورت میں دیدی گئی۔ 1988ءمیں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی معزولی بھی جنرل یحییٰ کی مرضی کے برخلاف جینوا معاہدے پر دستخط کرنا تھا۔ 1990ءمیں بے نظیر بھٹو حکومت کی برطرفی بھی دیگر وجوہات کے علاوہ بے نظیر کا آرمی سلیکشن بورڈ پر اثر انداز ہونے کی کوشش بھی اہم ترین وجہ رہی۔
پاکستان میں اب تک مجموعی طور پر 4 مارشل لاءلگ چکے ہیں اور تمام مارشل لاءایڈمنسٹریٹر بعدازاں صدارت کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ان تمام مارشل لاءکی بنیادی وجوہات یہ تشخص کہیں گئیں کہ فوج کے برسر اقتدار آنے کی وجہ یہ رہی کہ اس وقت کی سویلین حکومت پاکستان کی سالمیت کی حفاظت اور عوام کو فلاح دینے میں ناکام رہنے کے علاوہ شدید طور پر بدعنوانیوں کا شکار رہی۔
بدعنوانی جب کسی معاشرہ میں سرائیت کر جائے تو پھر معاشرہ شدید بے یقینی سے دوچار ہوتا ہے۔ ایک ایسا ماحول جنم لیتا ہے جس میں تمام ناجائز راستے ہموار ہو جاتے ہیں۔ معاشرے کے افراد مایوسی کا شکار ہوتے ہیں اور اس زمین میں کسی بھی اعتبار کا فقدان ہوتا۔ سیاست معاشرہ میں ہی پروان چڑھتی ہے۔ جمہوری سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ سیاستدان معاشرگہ کا حصہ ہوتا ہے اس کی کم فہمی، نا اہلی اور کوتاہ نظری غیر متعلق عناصر کو برتر ثابت کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔
حصول اقتدار کی سازشوں میں سیاستدانوں نے یقینی طور پر فوج کو استعمال کیا ہے۔جمہوریت کے نام پر قائم ہونے والی حکومتیں اس حقیقت سے بے بہرہ نظر آئیں کہ کلی طور پر جمہوری تائید کنندہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ صرف عوام ہی جمہوری عمل کے حق دار اور ذمہ دار ہیں اور اس کم علمی کا فائدہ یقینی طور پر مقتدرہ کے حصے میں آیا۔ جہاں سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین تنازعات حکومتوں کو برخواست کرنے کے محرک بنے۔
اس وقت پاکستان کلی طور پر جمہوریت سے تائب ہو کر عسکریت کے تابع ہو چکا ہے۔ حکومت کے بر شعبے میں اس کی اجارہ داری قائم ہوچکی ہے اور اس کی لاتعداد کہانیاں سامنے آرہی ہیں۔ صحافت، عدلیہ، بیوروکریسی نمایاں طور پر اس کے زیر اثر آکر عوام کے لئے حد درجہ مشکلات کا سبب ہورہے ہیں۔ پہلی حکومت کی عدم اعتمادی کی بناءپر برطرفی اور پھر حالیہ 2024ءکے انخابات کے نتائج کا اعلان پاکستان کو دنیا کے نقشے پر ایک عسکری ریاست کے طور پر فائز کرچکا ہے۔ بیرونی ادارے واضح طور پر اس کی نشاندہی کررہے ہیں کہ جمہوریت کا لبادہ اتر چکا ہے۔ ریاست پاکستان مجموعی طور پر مقتدرہ کے اختیار میں ہے۔ موجودہ حخومت بوجوہ مقتدرہ کے ایما اور نوازس کے صلے پر قائم ہونے پر مکمل بے دست و پا نظر آتی ہے۔
ریاست پاکستان میں فوج کو ہمیشہ ایک اہم حیثیت حاصل رہی۔ پاکستانی فوج پیشہ وارانہ مہارت کی وجہ سے عالمی صف میں اپنا ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ پاکستانی اپنی فوج کو اپنا فخر گردانتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے فوجی بجٹ پر سوال اٹھتے رہے مگر کبھی کٹوتی کی کوئی تجویز سامنے نہیں آئی۔ بلکہ فوج کو کئی ادارے اور بے شمار رہائشی اسکیمیں الاٹ کی گئیں۔ فوج جوان پاکستانیوں کے دلوں میں بستے ہیں مگر فوجی اشرافیہ نے 25 کروڑ پاکستانیوں کو مایوسی کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ یہ حقیقت اب فوج سے متعلق نئی سوچ کے زاویوں کو جگہ دے رہی ہے۔ گو کہ فوجی حلقوں سے یہ بیانیہ اپنا جاتا رہا کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ کئی برس قبل جنرل پرویز کیانی نے اور اس کے بعد پچھلے چند سالوں میں آئی ایس پی آر نے ہمیشہ یہ ہی دہرایا کہ فوج جمہوریت پر یقین رکھتی ہے مگر حالات کچھ اور نشاندہی کررہے ہیں۔
اس قدر دگرگوں حالات پاکستان میں سیاست کے کبھی نہیں رہے۔ ناعاقبت اندیش سیاستدانوں کی مفاد پرستی نے اس راستہ کو کھولنے میں انتہائی مدد کی ہے۔ میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے کے بعد فوجی آمر سے مفاہمت کرلینے جیسے کئی واقعات اس کے ذمہ دار ہیں۔ جمہوری ریاست کے خلاف سازش ایسی ہی معاملات کو گردانا جاتا ہے۔ جہاں عوام سے حکومت کا حق لے کر انہیں مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا جائے اور یہ باور کروادیا جائے کہ درحقیقت فوج ہی پاکستان کی مضبوط اشرافیہ ہے اور پاکستان اب ریاست عسکریہ پاکستان میں تبدیل ہو چکا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں