ریاست جمہوریہ/عسکریہ پاکستان 137

ریاست پاکستان تنزلی کی آخری حدوں پر۔۔۔

پاکستان کی حکومتی انتظامیہ پر اس وقت جتنے نوحے پڑھے جائیں وہ شاید کم پڑ جائیں۔ ریاست پاکستان نا اہل سیاستدانوں اور غیر ذمہ دارا ادارں اور اقربا پروری حکومتی برتاﺅ کے ہاتھوں تقریباً تنزیلی کی آخری حدوں کو چھو لینے کے مراحل میں نظر آرہی ہے۔ پاکستان کی معیشت اپنے اور بے گانوں کی مشترکہ کاوشوں سے ختم ہوتی جارہی ہے۔ اب یہ کہنے میں کوئی باک نہیں رہا کہ پاکستان کا وجود کھوکھلا کر دینے کی جو کوششیں کئی دہائیوں سے جاری و ساری ہیں اس میں اندرونی اور بیرونی دونوں عوامل اور کردار بھرپور انداز میں کارفرما رہے۔ دانستہ اور نادانستہ دونوں اطوار میں۔ نادانستہ کہہ کر شاید ہم اپنے آپ کو یہ باور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاید کچھ قومیت یا حب الوطنی کے جذبات باقی رہ گئے ہوں۔
پاکستانی عام کو جو مژدے گزشتہ چند دنوں میں سنائے گئے ہیں معیشت سے متعلق وہ اس مہنگائی سے پسی ہوئی قوم کے لئے مرگ نا گہانی سے کسی طور مختلف نہیں۔ ہر پاکستانی شہری اس وقت نہ صرف اپنی ذاتی مشکلات بلکہ اپنی ریاست کی بربادی کے آثار دیکھ کر سراسمیگی سے دوچار ہے۔ پاکستان کے ڈیفالٹ ہو جانے کے امکانات نے پورے ملک کو مایوسی کے سمندر میں ڈبو دیا ہے۔ پچھلے 75 سالوں میں پاکستان کئی مشکل حالات سے دوچار ہوا مگر کبھی امید کی ڈور ہاتھ سے نہیں چھوٹی مگر اس وقت تو یوں محسوس ہورہا ہے کہ عوام کے حوصلے ٹوٹ چکے اور بہتری کی تمام راہیں مسدود ہو چکی ہیں۔
پاکستان اپنی جغرافیائی حیثیت کے ساتھ ساتھ ایک نیو کلیئر پاور کی حیثیت کے طور پر بھی خطے اور عالمی طور پر ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ پاکستان کی فوج دنیا کی چند بہترین افواج میں شامل ہے۔ ماضی سے لے کر موجودہ حالات تک بڑے سپر پاورز پاکستان کی معاونت کے محتاج رہے ہیں۔ روس کی سرد جنگ سے لے کر امریکی افغان انخلاءتک پاکستان کی فوج کا کردار رہا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے اپنی مشکلات میں پاکستانی فوج کی مدد حاصل کی ہے۔ پاکستان کا مضبوط ریاست کے طور پر قائم رہنا جہاں علاقائی سالمیت کے لئے اہم ہے وہیں مغربی دنیا کے لئے باعث تشویش بھی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں حکومتوں کے قیام اور برخواستگی میں کسی نہ کسی طور بیرونی عوامل اور خواہشات شامل رہی ہیں۔
معیشت کی دگرگوں حالت تو ایک بہانہ ہوتی ہے، حکومتوں کو کمزور کرنے کی بیشتر مثالیں اس سلسلے میں موجود ہیں جہاں عالمی سازشوں نے نہ صرف حخومتیں تبدیل کروائیں بلکہ ان ممالک کو ایسی حالات سے دوچار کردیا گیا جہاں کسی بھی امر میں ان کی کوئی مرضی شامل حال نہیں رہی۔ اس وقت پاکستان کی موجودہ 13 جماعتی حکومت جس طرح International Monetary fund کے شکنجے میں رہتے ہوئے Survivol کے لئے ہاتھ پاﺅں مار رہی ہے اور جس سخت شرائط کا سامنا ہے وہ پاکستانی عوام کو انتہائی مشکل حالات سے دوچار کرے گا۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی عدم استحکام نے آئی ایم ایف کو اپنی ان شرائط پر قائم رہنے کے لئے کھلے مواقع فراہم کئے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ سیاسی اشرافیہ اس غیر معمولی صورت حال میں بھی ہوش و حواس سے مبرا نظر آتی ہے۔ ریاست کی سالمیت کے بجائے ان مخدوش حالات میں بھی اقتدار کی جنگ جاری ہے جس کے لئے تمام آئینی اور غیر آئینی حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔
جس ملک کے مالیاتی ذخائر قلیل ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں پاکستان کرنسی اس وقت بنگلہ دیش اور افغانستان کے مقابلے میں بھی کم ترین حیثیت اختیار کر چکی ہو، وہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہوں، قومی اسمبلی کی آدھے سے زیادہ نشستیں خالی ہوں، حکومت اور اس کے تابع محکمے عوام کو کسی بھی قسم کی آسانی دینے کے بجائے باعث زحمت ثابت ہو رہے ہوں تو یقینی طور پر وہ تمام عناصر فعال ہو جاتے ہیں جو ملک کے لئے بااچ نقصان ہوں۔ پشاور میں گزشتہ دنوں میں شدت کی دہشت گردی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں بے شمار شہادتیں اور زخمی ہوئے ہیں، حفاظتی امور میں بے توجہی یقینی طور ہوئی ہے۔ یہ شاخسانہ ہے ان تمام بیانات اور رویوں کا جو پچھلے کچھ دنوں سے افواج پاکستان سے متعلق پاکستان میں گردش کرتی رہی ہیں، دشمن ہمیشہ گھات میں رہتا ہے، سیاستدانوں اور اداروں کے غیر ذمہ دارانہ کردار ان کو تقویت پہنچاتے ہیں اور ضرب لگا دی جاتی ہے۔
موجودہ حخومت پچھلے دس ماہ میں بری کارکردگی کی مثال قائم کر چکی ہے۔ ان مشاہدات کے بعد اس کے جاری رہنے کا کوئی جواز نہیں دکھائی دیتا مگر تحرک انصاف نے بھی جس سیاسی غلطی کا ارتکاب اسمبلیاں تحلیل کرکے کیا ہے اس کا بھی بظاہر کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ تحریک انصاف کو یہ اندازہ قائم کرنے میں غلطی ہوئی کہ ان کا مقابلہ جن جماعتوں سے ہے وہ پچھلے چالیس سالوں سے سیاست کے زیرک کھلاڑی ہیں، پاکستان کی سیاست میں اب ویسے بھی اخلاقیات کا کوئی گزر نہیں رہا۔ وہ تمام آئینی ترمیمیں جو پچھلے دس ماہ میں پارلیمان میں منظور کی گئیں اور وہ تمام غیر آئینی کام جو پچھلے چند ماہ میں انجام دیئے گئے وہی پاکستانی سیاست کا اصل طریقہ کار ہے۔
بغاوت کے مقدمے صحافیوں، سیاستدانوں اور آمروں پر قائم کئے جاتے رہے ہیں۔ پاکستان میں اب ایک نیا ماحول شدت سے ابھر کر سامنے آرہا ہے جس میں تمام اداروں کی عزت انتہائی نحیف و ناتواں ہوتی جارہی ہے، انگریزوں کے بنائے ہوئے سو سالہ قدیم قوانین جن میں مقامی ہندوستانیوں کو اپنے انگریز آقاﺅں کے متعلق کسی بھی قسم کے تبصرہ کرنے کی اجازت نہیں تھی، آزادی کے بعد بھی اس قانون میں ترمیم کی ہمت نہ ہو سکی، مگر مسئلہ تو حقیقتاً آزاد ہو جانے پر ہے، احساس غلامی تو وہیں موجود ہے، چاہے وہ بیرونی آقاﺅں کا ہو یا موروثیت زدہ حکمرانوں کی یا پھر اپنے بددیانت اعمال کی۔
پاکستان میں جمہوریت کا نظام نافذ کرتے وقت اس اندیشہ پر شاید غور و فکر کی ضرورت محسوس نہ ہوتی ہو کیا ایسا واقعی کوئی نظام مرتب کیا جا سکتا ہے جس میں عوام کی شرکت عوام کے فیصلے عوام کے لئے کائے جائیں گے۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے کچھ عرصہ بعد ہی عنان حکومت ملکی اشرافیہ کے ہاتھوں میں چلی گئی اور ساتھ ہی طاقتور اداروں یا اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی کا سلسلہ شروع ہو گیا جو ہنوز جاری ہے۔ عوام کے مسائل کئی درجہ نیچے جا چکے ہیں اور برتری مسئلہ اقتدار اور ذاتی مفادات پر منحصر رہی۔
موجودہ صورت حال پیچیدہ ترین صورت حال ہے، پچھلے 75 سالوں میں پاکستان کبھی اتنی بدحالی کا شکار نہیں ہوا۔ اس کی ذمہ داری پچھلی کئی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے، کرپشن کا جو بازار کئی دہائیوں سے گرم رہا اس نے بداعتمادی کے ماحول کو اندرون و بیرون ملک مضبوط کیا۔ بیرونی ادارے ان تمام انتظامی لائحہ عمل اور مراحل پر نظر رکھتے ہیں جو حکومتیں اپنے معاملات کو سر انجام دینے کے لئے اختیار کرتی ہیں۔ پاکستان پر کرپشن کے الزامات رہے ہیں۔ پاکستانی عدالتیں بھی دنیا میں انصاف فراہم کرنے والوں کی فہرست میں انتہائی نچلی سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ موجودہ پاکستانی حکومت عالمی تناظر میں ایک ناکام حکومت کے طور پر سامنے آچکی ہے۔ موجودہ داخلی عدم استحکام بیرونی دنیا میں واضح طور پر ایک خطرناک صورت حال کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
13 جماعتی حکومت کسی طور اقتدار سے الگ ہونا نہیں چاہتی۔ جب کہ ایک مستحکم حکومت اس وقت پاکستان کی اہم ترین ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف کو بخوبی اندازہ ہے کہ یہ حکومت عوام کے درمیان اپنی ساکھ نہیں رکھتی اور اسے سخت شرائط کے ذریعے گھائل کرکے بیرونی دنیا کی حاکمانہ پالیسیوں پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ سری لنکا کی مثال سامنے ہے جہاں آئی ایم ایف نے فوج کے بجٹ میں کٹوتی کی شرط عائد کردی ہے جس کے نتیجے میں سری لنکا میں فوج کی نفری میں کٹوتی کا اعلان بھی سامنے آیا ہے۔ پاکستان کے سیاستدانوں کو زمینی حقائق کو پہچانتے ہوئے اپنے اس نعرے کہ ریاست پر سیاست قربان کی کو عملی جامہ پہنانا چاہئے۔ ریاست پاکستان خطرناک دہانے پر کھڑی ہے جہاں اس کی عدم استحکامی کئی دشمنوں کے لئے باعث طمانیت ہو سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں