دِل کے خوش رکھنے کو یہ خیال اچھا ہے غالب!
یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہے کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کو پاکستانی عوام اور تاریخ بھلا دیں اور وہ اتنے اتنے بڑے جرائم کرنے کے بعد آرام و سکون سے زندگی گزار سکیں۔ پچھلے پانچ سال میں پانچ وزرائے اعظم گھر بھیجے گئے یا تبدیل ہوئے مگر ایک بھی آرمی چیف تبدیل نہیں ہوا۔ یہ امر نہایت قابل مذمت ہے کہ فوج کے چند جرنیل ریاست کو یرغمال بنائے رکھیں اور جب وہ چاہیں حکومتیں بنائیں اور مٹائیں۔ یہ شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں ہوتا ہوگا۔
جنرل (ر) باجوہ نے پچھلے سات ماہ میں عمران خان کی حکومت ایک بیرونی سازش کا آلہ کار بنتے ہوئے ختم کی اور بدنام زمانہ سیاست دانوں کو عنانِ حکومت سنبھالنے میں مدد فراہم کی۔ یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ خان حکومت اچھی پروفارمنس دے رہی ہے اور خاص طور پر معاشی میدان میں خاصی مستحکم ہوتی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے بے شمار فلاحی کام تھے جو اس امپورٹڈ حکومت کے آنے سے بند ہو گئے کیوں کہ ہمارے ہاں پچھلی حکومتوں کے اچھے کاموں کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ باجوہ نے پاکستانی قوم کے ساتھ ایسا بھیانک کھیل کھیلا ہے کہ وہ جنرل یحییٰ خان کو بھی مات دے گیا ہے، تصور کریں کہ باجوہ کے جانے پر ملک بھر میں مٹھائیاں تقسیم کی گئی اور خوشیاں منائی گئیں۔
چھ سال ایکسٹینشن گزارنے کے باوجود پوری کوشش کی گئی کہ کسی طریقے سے باجوہ کو دوبارہ نوکری پر رکھ لیا جائے مگر ایسا نہ ہو سکا حالانکہ کئی بڑے مبصرین کا خیال تھا کہ باجوہ کو Continue کرایا جائے گا، کم از کم اسے آئندہ انتخابات تک رکھا جائے گا۔
عمران خان کے حالیہ انٹرویو کے مطابق باجوہ کو توسیع دینا ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ اسی طرح کی کئی غلطیاں دوسروں پر اعتماد کرتے ہوئے خان سے سرزد ہوئیں، اس کا کہنا ہے کہ میں ہر ایک پر اعتبار کر لیتا ہوں، کیوں کہ میرا کسی بھی کام میں ذاتی مفاد نہیں ہوتا، اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ملک و قوم کے لئے جو بہتر ہے اس میں روڑے نہیں اٹکانے چاہئیں۔
امپورٹڈ حکومت کے لائے جانے کے بعد عمران خان کی مقبولیت پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر کھڑی ہے، ہر خاص و عام کھلم کھلا اس کی حمایت کررہا ہے اور اس کے پچھے کھڑا نظر آتا ہے، خان کی مقبولیت میں اس کا دیانت دار ہونا اور پی ڈی ایم جماعتوں کا اتحاد ہے کیوں کہ جو لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے وہ سب ایک بوسیدہ حال چھتری کے نیچے جمع ہو گئے ہیں۔
امپورٹڈ سرکار کے آنے کے بعد لوگوں کا ردعمل اتنا شدید تھا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں لوگ خان کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے۔ بچے، نوجوان، عورتیں اور بوڑھے تمام اس حقیقی آزادی کی تحریک میں شامل ہیں۔ خان کا بیانیہ سر چڑھ کر بول رہا ہے اور لوگ جوق در جوق پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس وقت تمام سروے جو ہوئے ہیں ان کے مطابق پی ٹی آئی کی مقبولیت 75 فیصد سے زائد ہے۔
احمد نورانی نے باجوہ کی فیملی کے اربوں روپوں کے اثاثوں کا جو انکشاف کیا ہے وہ دنیا بھر کے میڈیا میں Discuss ہو رہا ہے اس رپورٹ میں امپورٹڈ حکومت کی طرف سے ایف بی آر کی ٹیکس ریٹرن بھی صحافی کو پہنچائی گئی ہیں۔ جس کے مطابق باجوہ کی بیوی، بہو اور بیٹوں کے اثاثے صفر تھے جو کہ ان چھ سالوں میں اربوں روپوں پر پہنچ چکے ہیں، باجوہ کے سمدھی صابر مٹھو جو کہ پراپرٹی کا کام کرتا ہے کو بے حد نوازا گیا اور مبینہ طور پر اسے علیم خان کا پارٹنر بھی کہا جارہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اسی لئے باجوہ عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے اور علیم خان کو وزیر اعلیٰ بنوانے کے لئے کوشاں تھا جو کہ عمران خان نے نہیں مانا پھر ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی تبدیلی پر بھی باجوہ سے اختلافات شروع ہو گئے۔ فوج نہ صرف اپنے ادارے کو مرضی سے چلاتی ہے بلکہ سول حکومتوں میں بھرپور مداخلت کرتی ہے۔ جس کا اعتراف اپنی الوداعی تقریب میں باجوہ نے کیا ہے اور اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ آئندہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ریٹائر ہوتا ہوا آرمی چیف آنے والے آرمی چیف کے لئے ریڈلائن وضع کردے۔ نیا آرمی چیف عاصم منیر اپنے فیصلے خود لے گا اور میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح کے انتقامی کام سیاست دانوں اور صحافیوں کے ساتھ کئے گئے ہیں ان سے باز رہا جائے گا۔
جنرل عاصم منیر سے مطالبہ ہے کہ وہ آئی ایس آئی کو اس گھناﺅنے کھیل کا حصہ بننے سے باز رکھے اور اعظم سواتی، شہباز گل اور باقی ماندہ افراد کے خلاف قائم ہونے والے ناجائز مقدمات کو واپس کروائے۔ فوج اور عوام میں جو نفرتیں پیدا ہو گئی ہیں ان کو ختم کرے۔ بس اتنا ہی کافی ہے۔
190