ملک کی سلامتی کا انحصار ان اداروں یا افراد پر ہوتا ہے جن کے پاس تمام تر اختیارات مرتکز ہوں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سلامتی کے ادارے موجودہ حالات میں ملک کے اطراف ہونے والے خطرات کے بارے میں زیادہ فکرمند ہیں۔ اب ان فوجی اداروں نے خطرات کے اندیشوں کو بھانپ کر ملک کے سویلین حلقوں سے بھی مشاورت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اس دور میں حالات جس تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں ان سے نبردآزما ہونا صرف فوجی حکام کے بس کی بات نہیں۔ فوجی ادارے ان پالیسیوں پر گامزن رہے جو انہوں نے ابتدائی زمانے میں مرتب کی تھی ان پالیسیوں کا تعین قیام پاکستان کے وقت سے ہی متعین کردیا گیا۔ بلکہ کہنا یہ چاہئے کے قیام پاکستان ہی ان اصولوں اور ضابطوں کی وجہ سے ہوا تھاجس کی آزادی کا حصول ممکن ہوا یعنی پاکستان کا قیام کا مقصد ایک یہ بھی رکھا گیا تھا۔ پاکستان کے قیام کے بعد جن قوتوں سے آزادی حاصل کی گئی تھی ان کے مفادات کی حفاظت بھی مقصود تھی۔ آزادی کے لئے یہ ہی شرط رکھی گئی تھی جس طرح امریکہ نے طالبان سے اس شرط پر معاہدہ کیا تھا کہ ان کے مفاد کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں ہوگی اس ہی طرح پاکستان کا قیام بھی اس شرط پر رکھا گیا تھا کہ پاکستان ہمیشہ مغرب کی مخالف قوتوں کے سامنے کھڑا رہے گا جس کی عیوض پاکستان کو ایک خطہ زمین کے ساتھ ساتھ انگلستان کی تربیت یافتہ فوج کا بڑا حصہ دیا گیا تھا۔ یعنی پاکستان کو ہندوستان کا سترہ فیصد علاقہ اور آبادی کا تقریباً بیس فیصد کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ بڑی فوج جو کہ سینتیس فیصد تھی پاکستان کے حصے میں آئی تھی۔ اس کا مقصد ہی یہ تھا کہ فوج کو مغربی قوتوں کے مفادات کے لئے ہمیشہ استعمال کیا جا سکے اور ایسا ہی مختلف ادوار میں اس فوج کا استعمال ہوا۔
ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر جو اعداد شمار کے اعتبار سے پاکستان کے پاس وسائل دیئے گئے تھے اس میں مغربی اور مشرقی پاکستان شامل تھے۔ بعد میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ان فوجی وسائل میں اضافہ بھارت کے اعتبار سے بڑھتا چلا گیا۔ ان وسائل کو ہمیشہ پہلے برطانیہ اور بعد میں امریکہ کے مفادات کے لئے استعمال کیا گیا یوں پاکستان شروع ہی سیٹو اور سینٹو کا ممبر بن کر سوویت یونین اور مشرقی بلاک کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس ہی طرح ایک وقت وہ بھی آیا جب پاکستان ان مغربی قوتوں کا نون نیٹو الائی کا درجہ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ یوں ایک طرف پاکستان کے تمام ادارے بشمول فوج امریکہ اور مغربی طاقتوں کے لئے وقت ضرورت استعمال ہوتے رہے۔ موجودہ دور میں امریکہ کے مقابلہ میں چین ایک اُبھرتی ہوئی قوت کے طور پر سامنے آکر کھڑا ہوگیا ہے۔ امریکہ نے بھارت کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر بنا لیا ہے جس کی وجہ سے ایک طرف بھارت اور دوسری طرف افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی سلامتی کو بڑے بھیانک خطرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، دوسری طرف پاکستان کے پاس ایک ہی اتحادی چین کی صورت دکھائی دے رہا ہے جو ایک حد تک پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کو اپنی پرانی رفاقتیں اور پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ اس لئے اب قیام پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد کی متعین کردہ پالیسیوں کو تبدیل کرنا ناگزیر دکھائی دے رہا ہے۔ اب جو تبدیلیاں لائی جائیں گی ان کے اثرات آئندہ کے بڑے طویل عرصے تک کے لئے قائم رہیں گے۔ ایک طرف امریکہ اور مغرب نے چین کے خلاف محاذ میں بھارت کو اپنا شریک بنا کر پاکستان کی سلامتی کے خطرات میں بے تحاشا اضافہ کردیا ہے پاکستان جو پہلے شدید معاشی اور سلامتی کے خطرات میں شدت سے جکڑا ہوا ہے ملک کے اندر انتشار کی کیفیت ہے، ادارے آپس میں دست و گریباں ہیں، ملک اندرونی انتشار کا شکار ہے، دوسری طرف بیرونی خطرات کا دیو چاروں طرف سے اس کو گھیرے ہوئے ہے اس موقع پر امریکہ اور مغرب کی قوتوں کے ساتھ ساتھ بھارت اور افغانستان سے خطرات میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔
اندرونی اور بیرونی خطرات سے مقابلہ کے لئے ملک اور معاشرے کے ہر طبقے کو آگے بڑھ کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر ان خطرات کا مقابلہ کرنے کی تیاری ہنگامی بنیادوں پر شروع کردینی چاہئے۔
گزشتہ ستر سالوں سے فوج نے براہ راست یا بالواسطہ ملکی اداروں کے اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات میں اب ان خطرات کے مقابلے کے لئے تنہا تیاری نہیں کر سکتی ہے اس لئے ملکی سلامتی کے معاملات میں سویلین کو بھی نہ صرف شامل کیا جائے بلکہ اقتدار کے ساتھ ساتھ اختیارات کو بھی ان کے حوالے کردیا جائے ان اختیارات کو منتقل کرنے کی ذمہ داری بھی فوجی اور سلامتی کے اداروں پر عائد ہوتی ہے اس لئے وہ ان اہل اور تجربہ کار افراد کے حوالے تمام اختیارات کردیں جیسے کہ ہندوستان یا بنگلہ دیش میں سول حکومتوں کے پاس اختیارات موجود ہیں اور مزید روشن خیالی اور وسیع النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر ایک ادارے کو اس کی ماہانہ خصوصیات کی مناسبت سے ذمہ داریوں سے نوازا جائے۔ سیاستدانوں کو غیر جانبدارانہ طور پر ان کی صلاحیتوں کے اعتبار سے عہدے تفویض کئے جائیں اس ہی طرح سویلین اور بیوروکریسی کے ذمہ ان پالیسیوں پر میرٹ پر عمل درآمد کروانے کی ذمہ داریاں تفویض کی جائیں فوج صرف سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ملکی سلامتی پر بھی بھرپور انداز میں شامل رہے مگر اپنی حدود میں رہ کر۔
ایمپائر کے فرائض بھی ان اداروں کی ذمہ داریوں میں شامل ہو مگر یہ غیر جانبدارانہ ہونی چاہئے یعنی انہیں خود اس کھیل کا حصہ نہ رہنا چاہئے اور کسی بھی فریق سے جانبداری نہ برتتے، اصولی فیصلہ پر قائم رہنا چاہئے۔
معاشرے کے تمام طبقوں کو باہم مل کر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ ملک میں قومی یک جہتی کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔ سلامتی کے خلاف خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری قوم کو تیار کرنا چاہئے سب سے پہلے ملکی اداروں اور محکموں کو اپنے اخراجات میں بے پناہ کمی کرکے عوام کو مہنگائی کے عذاب سے باہر نکالنا چاہئے۔ اس طرح ایک طرف تمام ادارے اور محکمہ کے اعلیٰ حکام اپنے طرز زندگی کو مکمل تبدیل کرکے اپنے آپ کو عوام کی سطح پر لا کر قربانی کے لئے پیش کرنا ضروری ہے اگر ایسا نہیں ہوا تو جس طرح کے خطرات چاروں طرف منڈلا رہے ہیں اگر وہ حقیقت کا رخ اختیار کر گئے تو یہ تمام سہولیات زبردستی ان سے چھین لی جائیں گی اس وقت کا یہ سنگین بحران مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بحران سے بھی زیادہ بھیانک ہے اس دور میں پاکستان کی معیشت آج کے مقابلے میں بہت بہتر تھی اور بہت سے بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کے مددگار تھے جب کہ اب اس کے بالکل برعکس ہے اس کے ساتھ ساتھ بہت سے دوست ممالک بشمول عرب اور مسلم ممالک بھی پاکستان کے دوستوں میں شامل تھے۔ جب کہ اب پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہے سوائے ترکی اور چین کے سب امریکہ اور بھارت کے زیر اثر ہیں وہ پاکستان کی مدد کرنے سے قاصر ہیں ایک طرف امریکہ اور مغرب پاکستان کے خلاف صف آراءہو چکی ہیں دوسری طرف بھارت میں مودی کی حکومت پاکستان اور مسلمانوں کو کھلم کھلا برباد کرنے کی تدبیریں کررہے ہیں، تیسری طرف افغانستان کے حالات سے براہ راست پاکستان متاثر ہو رہا ہے اس طرح تمام ہوائیں پاکستان کے خلاف چل رہی ہیں اور ملک میں قومی یک جہتی کا فقدان نظر آرہا ہے ہر طرف خطرات کے اندھیرے منڈلا رہے ہیں دنیا بھر میں ہر طرف مخالفین عروج پر دکھائی دے رہے ہیں۔
ساری دنیا میری مخالف ہے
تم نے کیا کہہ دیا زمانے سے
صبا اکبر آبادی
328