عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 358

سعودی عرب کی بلیک میلنگ

سعودی عرب کے پاکستان میں مقیم سفیر کی پراسرار سرگرمیاں، حکومت پاکستان کے خودمختاری پر بالخصوص اور محکمہ خارجہ پر بالعموم سوالیہ نشان بنتی جارہی ہیں۔ سعودی سفیر کی یہ سرگرمیاں اسے سفارت کے منصب سے رسوائے زمانہ وائس رائے ہند کے منصب پر پہنچانے کا باعث بن رہی ہیں۔ موصوف ایک خاص ایجنڈے کے تحت حکومت وقت کے کرتا دھرتاﺅں کے بجائے صرف حکومت مخالف سیاستدانوں اور شخصیات سے مل رہے ہیں۔ جس سے اس طرح کا تاثر مل رہا ہے کہ سعودی سفیر ایک طرح سے عمران خان کے حکومت کے خلاف مہم چلا رہے ہیں اور وہ رائے عامہ ہموار کررہے ہیں اور اگر وہ اس طرح سے کررہے ہیں تو پھر سعودی عرب براہ راست پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہو رہا ہے اور وزارت خارجہ کو اس کا فوری طور پر نوٹس لینا چاہئے اور ان سے ان کے اس ناپسندیدہ فعل پر جواب طلب کرلینا چاہئے۔ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان اس وقت تعلقات کچھ اچھے نہیں ہیں اس لئے کہ خود سعودی عرب اس وقت گرداب کا شکار ہے کیونکہ امریکہ کی جانب سے انہیں وہ پذیرائی ہیں مل رہی جس کی وہ آس لگائے بیٹھے تھے، دوسری جانب پاکستان اور ترکی کے بڑھتے ہوئے تعلقات بھی ان کے دکھ اور تکلیف کا باعث بن رہے ہیں۔ سعودی عرب نے اپنے طور پر عمران خان کی حکومت کو نواز شریف کے حکومت کی طرح سے اپنے اشاروں پر چلانے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں مسلسل ناکام ہو رہے ہیں اس لئے کہ عمران خان پر جلد ہی سعودی حکومت کی اصلیت واضح ہو گئی کہ سعودی حکومت تو دراصل امریکہ اور اسرائیل کے سہولت کار کا کردار ادا کررہی ہے اور وہ پاکستان کی گاہے بگاہے امداد کرکے ایک طرح سے اسے اپنی کالونی کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں یعنی دوسرے معنوں میں ان کی وہ امداد مشروط تھی وہ اس مالی امداد کے ذریعے پاکستان کی خودمختاری کو اپنے پاس گروی رکھنا چاہتے تھے جس پر سابقہ حکومتیں تو کسی نہ کسی طرح سے سمجھوتہ کرلیا کرتی تھیں لیکن عمران خان کی حکومت نے اس پر سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا یہ ہی وجہ ہے کہ جب سعودی عرب نے کشمیر کے معاملہ پر اپنا ووٹ پاکستان کے بجائے بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا تو اس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو یہ بیان دینا پڑا کہ وہ کشمیر کے معاملہ پر عالم اسلام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کوئی اور راہ تلاش کریں گے لیکن پاکستانی وزیر خارجہ کے اس بیان کے بعد سے سعودی عرب ی حکومت کو نہ جانے کیا ہوا کہ ان کا پاکستان میں موجود سفیر حرکت میں آگیا اور وہ اس طرح کا تاثر ہر ملنے والے سے دے رہا ہے کہ جیسے عمران خان چند دنوں کا مہمان ہوں۔
سعودی عرب دراصل پاکستان کو اپنے خیرات کے عوض نوکروں کی طرح سے چلانے کا عادی ہے اور جب عمران خان نے انہیں ان کا حسب منشا جواب نہیں دیا اور انہیں ان کی اوقات یاد دلا دی تو سعودی حکومت چراغ پا ہو گئی اور وہ جلد ہی اپنی اصل صورت میں آگئی اور اب وہ مقابلے اور انتقام پر اتر آئی ہے۔ سعودی عرب کے اپنے اندرونی حالات ان دنوں خرابی کے بلند ترین سطح پر آگئے ہیں۔ 2023ءکے قریب آتے ہی انہیں اپنے محلات کے در و یدوار ہلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اس لئے وہ کسی بھی حالت میں یہ نہیں چاہیں گے کہ ترکی اس ایک سو سالہ معاہدے سے دست بردار ہو جائے جس کے نتیجے میں سعودی عرب سمیت دوسرے دو درجن خلیجی ممالک اپنی اسلام دشمن سرگرمیوں کی وجہ سے دنیا کے نقشے پر ابھرے تھے اب اگر ترکی اس معاہدے سے آزاد ہو جاتا ہے تو ترکی کے بطن سے جنم لینے والے ان خلیجی ممالک کی موجودگی خطرے میں پڑ جائے گی۔ سعودی عرب کی پاکستان سے خفگی کی شروعات تو اسی وقت شروع ہو چکی تھی جب عمران خان کی حکومت نے ترکی ڈرامہ ارطغرل غازی کی نشریات شروع کر دی تھیں اس ڈرامہ کی شروعات پاکستان کے خارجہ پالیسی کی تبدیلی کا عندیہ تھا کہ پاکستان ترکی کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستان یہ انداز ہی سعودی عرب کے لئے موت کا پیغام تھا جس کے لئے سعودی حکمرانوں نے چال چلی کہ وہ کشمیر کے معاملے میں اس شرط پر حکومت پاکستان کا ساتھ دے کہ وہ ایک ترکی سے راہیں الگ کردیں اور دوسرا اس ملک سے سفارتی تعلقات بہتر کرلیں جس کی ممانعت ان کے پاسپورٹ پر بھی درج ہے لیکن عمران خان نے سعودی عرب کی ان دونوں خواہشوں کو ماننے سے معذوری ظاہر کرلی تو اس کے بعد سے سعودی حکمرانوں کی جانب سے اس بلیک میل کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے جس کی انتہا سعودی سفیر نے کردی کہ وہ کھلم کھلا سفارتی آداب کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کی خودمختاری کو قدموں کی ٹھوکر بنا رہا ہے جو کہ انتہائی معیوب ہے اور اس پر خود پاکستان کے دفتر خارجہ کی خاموشی بھی معنی خیز ہے جب کہ پاکستان کے جو سیاستدان بغض عمران میں سعودی سفیر سے ملاقات کررہے ہیں انہیں ہی سوچنا چاہئے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔
سعودی سفیر کس حیثیت سے ان سے مل رہا ہے؟ دفتر خارجہ کو فوری طور پر سعودی سفیر کو طلب کر لینا چاہئے کہ ان کی یہ ملاقاتیں سفارتی آداب کے منافی ہیں۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ بالکل بھی سعودی عرب کے ہاتھوں بلیک میل نہ ہو ان کی امداد ان کے منہ پر ماردیں اور ان کے کسی بھی ناجائز مطالبے پر یا خواہش پر عمل کرنے کی غلطی نہ کریں۔ پاکستان کی خودمختاری اور اس کی آزاد خارجہ پالیسی کو ہر معاملے پر قدم رکھا جائے یہ ہی ایک بدلتے پاکستان کا تقاضا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں