بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پر کڑی تنقید کی جب کہ بلوچستان اور گلگت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بلوچستان اور گلگت کے عوام کی طرف سے مدد کے لئے پکارا جا رہا ہے تاکہ وہ پاکستان سے آزادی دلانے میں ہماری مدد کریں۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کے ایک وزیر کی جانب سے کچھ اس ہی طرح کا بیان منسوب ہوا ہے کہ وہ پاکستان کے ان علاقوں کے عوام کے مطالبات کی حمایت کرتے ہیں جو پاکستان کی جانب سے ان پر مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں اور اپنے جائز حقوق کی بحالی کے حوالے سے حکومت سے کررہے ہیں ایک اور سمت سے افغانستان کی حکومت کی جانب سے پاکستان کے خلاف اس ہی طرح احساسات اور جذبات کے اعلانات وقتاً فوقتاً جاری ہوتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کے وہ دوست ممالک جو کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے تھے وہ بھی پاکستان سے الگ تھلگ نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ برادر اسلامی ممالک جو ہر موقع پر ہر فورم پر پاکستان کی مدد کرتے رہتے تھے وہ بھی اب خاموش رہ کر ایک طرح سے بھارتی موقف کی حمایت کررہے ہیں۔ روس سے تو ہم نے امریکہ کی محبت میں افغانستان کی جنگ میں اپنے تعلقات اس حد تک بگاڑ لئے تھے کہ اس سے اب تعلقات نہ ہونے کے برابر ہو چکے ہیں یہ ہی صورت حال ایران کی ہے جو ایک الگ ہی پیغام دے رہا ہے۔ امریکہ جس کے لئے ہم نے تمام ملکوں سے تعلقات کو پس پشت ڈال دیا تھا وہ امریکہ بھی اپنی آنکھیں پھیر کر ہندوستان سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے عوام پر بے پناہ مظالم تمام دنیا امریکہ سمیت خاموش ہیں جب کہ کہا یہ جارہا ہے کہ موجودہ حالات میں کشمیر کے عوام نے پہلی بار بغیر کسی بیرونی حمایت کے یا پاکستان کی جانب سے کسی مدد کے بغیر ایک ایسی خودمختاری کی تحریک چلائی ہے جو گزشتہ ستر سال کی کشمیر کی تحریکوں سے بالکل مختلف اور زور دار ہے۔ جس میں ہندوستان کی تقریباً آٹھ لاکھ فوج کے ساھ وہاں کی مقامی سیکیورٹی کے ادارے اس سے علیحدہ ہیں جو کشمیر کی اس تحریک کو دبانے کے لئے وہاں کے عوام پر بے پناہ مظالم کے مرتکب ہو رہے ہیں اب تک سینکڑوں کشمیریوں کو شہید یا زخمی کردیا ہے۔ اس پر دنیا کے بڑے ممالک اپنی زبان کو سی چکے ہیں جس میں امریکہ بھی شامل ہے۔ بلکہ جب بھی ان کی زبان کھلتی ہے تو وہ پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز گردانتی ہے۔ صرف ایک ملک ہی پاکستان کی کچھ مدد کرنے کی حیثیت میں ہے وہ ہے چین جس نے پاک چائنا کوریڈور کے لئے تقریباً چھالیس ارب ڈالر کا منصوبہ بنایا ہے۔ پاکستان میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پاک چائنا کوریڈور تو بن سکتی ہے مگر شاید پاکستان اس منصوبہ کا متحمل نہ ہو سکے، کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کشمیر تو شاید آزاد ہو جائے گا مگر خدانخواستہ پاکستان قائم نہ رہ سکے گا۔
ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو اپنی وہی پالیسی رکھنی چاہئے یا اس میں کسی قسم کے ردوبدل کی ضرورت ہے، کہتے ہیں کہ پاکستان کی پالیسیاں وہاں نہیں بنتی جہاں ان کو بننا چاہئے۔ بلکہ وہاں بنتی ہیں جہاں ان کو نہیں بننا چاہئے۔ جب کہ اس طریقہ پر عمل کرنے سے اب تک پاکستان کو نقصان ہی نقصان ہو رہا ہے سب سے بڑا نقصان تو پاکستان بننے کے بعد تقریباً پچیس سال تک بننے والی ان پالیسیوں کے نتیجہ جس میں پہلے مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش بنا جو کہ ایوب خان اور یحییٰ خان کی بنائی ہوئی غلط منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا جس میں لاکھوں مسلمانوں کی جانیں بھی گئی اور ملک کو نیم لخت بھی کردیا گیا۔ اس کے بعد اسی کی دہائی میں پاکستان نے افغانستان کی جنگ میں کود کر اس جنگ کو اپنی سرحدوں تک لے آیا جس کے بعد پاکستان میدان کارزار بن گیا جس کے نقصانات پاکستان کے اندر تک سرائیت کر گئے اس میں بھی لاکھوں مسلمان ہلاک کردیئے گئے۔ آج ملک جس مقام پر پہنچ گی اہے کہ وہ مسائل کی دلدل میں ڈوبتا جارہا ہے۔
یہی وقت ہے کہ سب سے پہلے اپنی تمام پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے اور یہ کام ان کے سپرد کردیا جائے جو کہ اس کے اہل ہیں۔ ان پالیسیوں کو اب تک چلانے والوں نے اپنے طریقہ کار میں ہر کام کو قوت سے حل کرنے کی تدبیر اختیار کی جس کے نتیجہ میں 1965ءکی جنگ ہوئی، نقصان دونوں طرف کا ہوا مگر معاملات اپنی جگہ پر موجود رہے اور ملک عوام استحکام کی جانب رواں ہو گیا جس کے نتیجے میں یا ان ہی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک نیم لخت ہو گیا اور لاکھوں پاکستانی مسلمانوں کی جانیں بھی ضائع ہوئیں ان ہی پالیسی سازوں نے افغانستان میں روس کے خلاف جنگ میں حصہ لے کر مسئلہ کو طاقت کے زور پر حل کرنا چاہا جس کے اثرات یہ ہوئے کہ تمام ملک اس جنگ کی آگ میں جھونک دیا گیا۔
موجودہ حالات میں جب ان پالیسیوں کی وجہ سے فاٹا کے حالات اس قدر خراب ہوئے ملکی سیکیورٹی اداروں کی بڑی تعداد نے ایک بہت بڑا آپریشن کرکے جس کے نتیجے میں تقریباً پندرہ لاکھ لوگوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں پناہ لی جب کہ اس آپریشن میں ہزاروں پاکستان سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی جانیں بھی گئیں۔ دوسری طرف بلوچستان میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہاں پر پاکستان کا پرچم لگانے والے خوفزدہ رہتے۔
کراچی کے حالات تو اس قدر بھیانک رخ اختیار کر چکے تھے کہ روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوتے جب کہ رینجرز وہاں پر گزشتہ بیس سال سے موجود تھی۔ جب کراچی میں بھی پانی سر سے گزرنے لگا تو ایک بڑے آپریشن کا آغاز کیا جو گزشتہ تین سال سے جاری ہے۔ ان تمام حالات میں معاملات اس نوعیت تک چلے گئے کہ جو کسی ایک ادارے کے قابو میں نہیں آسکتے تھے۔ جس کے لئے موجودہ طریقہ کار اختیار کیا گیا جو معاملات سیکیورٹی اداروں کو طے کرنے تھے ان کی پالیسیوں کا اختیار ان کو دیا جو معاملات سول اداروں کے کرنے کے تھے وہ سول ادارے ان معاملات کو بہتر انداز میں طے کررہے ہیں یوں گزشتہ تین سالوں سے سول ادارے اور سیکیورٹی ادارے جس طرح مل جل کر کام کررہے ہیں اس سے امید یہ ہی پیدا ہو گئی ہے کہ اب پالیسیاں صحیح انداز میں اور صحیح جگہ مرتب کی جا سکیں گی۔ ان پر خطر حالات میں پاکستان کی کشتی کو ڈوبنے سے بچانے میں کامیاب ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔ یہ معاملات ایک بہتر نیت کے بغیر حل ہونے ممکن نہیں اس لئے
تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ دِل کا
آدمی بن کے رہوں کہ فرشتہ کی طرح
335