تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 487

سندھ تقسیم ہو چکا ہے

جب لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں شہید کیا گیا تو اس کے بعد ہی چھوٹے صوبوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھنا شروع ہو گیا۔ بنگال میں بھی اس ہی قسم کی تحریکوں کا آغاز ہو گیا جن کو مرکز گریز قوتوں کا نام دیا گیا۔
وہاں پر پہلے شیر بنگال مولانا فضل حق نے خودمختاری کی تحریک شروع کی۔ پھر اس کے بعد حسین شہید سہروری نے بھی اس ہی بنیاد پر عوامی مسلم لیگ بنائی۔ اس ہی طرح خان عبدالغفار خان کی تحریک نے اس وقت کے صوبہ سرحد میں بے چینی کا آغاز کیا۔ بلوچستان میں تو مختلف سرداروں نے بھی مرکز کے اقدامات کے خلاف آوازیں اٹھانی شروع کر دیں۔ یوں سندھ میں جی ا یم سید نے بھی پنجاب کے خلاف باتیں کرنا شروع کریں۔ اس طرح سندھ میں قوم پرستی پر مبنی مختلف طرح کی تحریکیں شروع ہوگئیں اور اس ہی دوران جئے سندھ کی تحریک کا آغاز بھی ہو گیا۔ دوسری طرف جی ایم سید کی رہنمائی میں سندھو دیش کا نعرہ بھی لگنا شروع ہو گیا۔ ایک طرف سندھ کے مفادات کی نگہبانی کے لئے فرائض میں سندھی رہنماﺅں کے ساتھ مہاجروں نے بھی اس میں بھرپور حصہ لینا شروع کردیا۔ سندھ تاس کے معاہدے میں مذاکراتی ٹیم میں مہاجر اکابرین کا بھرپور حصہ رہا، یہ لوگ مرکز سے سندھ کے آئینی اور مالی حقوق کے لئے بھرپور طریقے سے مقدمہ لڑنے میں مصروف تھے۔ جب سندھ میں جئے سندھ کی تحریک کے ساتھ سندھو دیش کے لوگوں نے اندرونی سندھ غیر سندھی باشندوں کے خلاف مختلف طرح کی کارروائیاں جاری رکھی تو سندھ میں نواب مظفر خان کی قیادت میں ایک متحدہ محاذ قائم کیا گیا۔ جس کو سندھ مہاجر پنجابی پٹھان متحدہ محاذ کا نام دیا گیا۔ اس ہی دوران سندھ کے ایک وزیر جو ایوب خان کی کابینہ کے واحد سویلین وزیر تھے ذوالفقار علی بھٹو نے وقت اور موقع کی نزاکت سے بھرپور فائدہ اٹھا کر اپنی پیپلزپارٹی قائم کرنے کا اعلان کیا اس موقع پر مہاجروں کے اعلیٰ دماغوں نے اس پارٹی کے قیام کو یقینی بنانے میں ایک بڑا کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کے ساتھ ساتھ پنجاب کے بائیں بازو کے دانشور بھی اس پارٹی کے قیام کے لئے بھرپور کردار ادا کرتے رہے۔ سندھ کے چند بڑے وڈیرے جس میں مخدوم زمان طالب علم مولیٰ کے ساتھ ساتھ جتوئی خاندان جن میں حیدر بخش جتوئی بھی شامل تھے ان کے علاوہ تالپور برادران نے بھی اس پارٹی کے قیام میں ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دیا۔ اس موقع پر ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دینے والوں میں سندھی وڈیروں کی نسبت مہاجروں اور پنجابی رہنماﺅں نے آمریت کے خلاف جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بھٹو نے اس وقت مرکز کی طاقتوں قوتوں کے ساتھ مل کر دیگر مرکز گریز قوتوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں شروع کردیں ان میں بنگال میں مجیب الرحمن کی عوامی لیگ سرحد میں ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی بلوچستان کے سرداروں میر خیر بخش مری، اکبر بگٹی اور عطاءاللہ مینگل کے ساتھ ساتھ سندھ میں جی ایم سید اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائیاں شروع کرنے میں اسٹیبلشمنٹ کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔ بعد میں جیسے ہی مشرقی پاکستان علیحدگی کے بعد مجیب الرحمن سے نجات حاصل ہوئی تو انہوں نے سندھ کے قوم پرستوں کو انے ساتھ شامل کرنا شروع کردیا۔ اس ہی زمانے میں نواب مظفر خان نے سندھ میں مہاجر پنجابی پٹھان متحدہ محاذ کو منظم کرنا شروع کردیا اس ہی دوران سندھ کی قیادت جی ایم سید سے چھن کر سندھ پیپلزپارٹی کے ہاتھ آگئی۔ یوں اکثر قوم پرست ان کے ساتھ شامل ہو کر ذوالفقار علی بھٹو نے مرکز میں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو سندھ میں اپنے بھائی ممتاز علی بھٹو اور رسول بخش تالپور کو گورنر اور وزیر اعلیٰ مقرر کردیا اس موقع پر جب پنجاب اسمبلی کے ساتھ ساتھ سرحد اسمبلیوں نے اردو کو صوبہ کی قومی زبان کے ساتھ ساتھ صوبائی زبان کا درجہ دیا تو سندھ میں سندھی کو سندھ کی قومی اور سرکاری زبان بنانے کا اعلان کیا۔ یوں پورے سندھ میں غیر سندھی ایک طرف کھڑے ہو گئے۔ دوسری طرف سندھ کے تمام قوم پرست پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑے ہو گئے یوں سندھ میں پہلی بار سندھی اور غیر سندھیوں کے درمیان فسادات شروع ہوگئے۔ اس طرح سندھ میں پہلی بار تقسیم کا آغاز ہو گیا۔ ایک طرف سندھی پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑے ہو گئے دوسری طرف مہاجر سمیت تمام غیر سندھی تھے۔ جو کام نواب مظفر خان سندھ میں مہاجر پٹھان پٹھانوں کو متحد کرکے ایک پلیٹ فارم پر کھڑا نہ کر سکے وہ بھٹو کی پیپلزپارٹی نے کر دکھایا۔ یوں سندھ میں جی ایم سید کا زور ٹوٹنا شروع ہو گیا۔ جب ضیاءالحق نے بھٹو کو اقتدار سے معزول کرکے تختہ دار پر چڑھا کر سندھ میں پیپلزپارٹی کا زور توڑنے کے لئے جی ایم سید سے رابطے شروع کردیئے۔ دوسری طرف شہری سندھ میں مہاجروں کا ایک گروپ بنانے کے لئے الطاف حسین سے رابطہ کیا گیا اس کے علاوہ کراچی اور حیدرآباد میں غلام سرور اعوان کی قیادت میں پنجابی پختون اتحاد بنوایا اس طرح سندھ میں باقاعدگی سے پنجابی پٹھانوں کے خلاف مہاجروں کو لڑوایا گیا۔ اس طرح ایک طرف ضیاءالحق نے جی ایم سید کو اپنا ہم نوا بنوایا دوسری طرف الطاف حسین کو بھٹو کی سندھی قیادت کے خلاف ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیا۔ تیسری طرف غلام سرور اعوان کو مہاجروں کو قابو رکھنے کے لئے استعمال کیا اس طرح پورے سندھ میں قتل و غارت گری کا دور دورہ شروع ہوا جس کا الزام بھی مہاجروں پنجابیوں پٹھانوں پر لگایا جاتا ہے۔ دوسری طرف اندون سندھ سندھیوں کو الزام لگایا جاتا ہے جس کی قیادت مکمل طور پر پیپلزپارٹی کے ہاتھ آچکی تھی۔
ضیاءالحق کے بعد فوجی قیادت نے سندھ سے غلام سرور خان کا کردار ختم کرکے کراچی میں اے این پی، ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کو پٹھانوں مہاجروں اور سندھیوں کو ان کے حوالے کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اس طرح آہستہ آہستہ پیپلزپارٹی کو سندھ کے اندرونی علاقوں تک محدود کردیا گیا۔ اور پنجاب سے پیپلزپارٹی تقریباً ختم ہونا شروع ہو گئی۔
پیپلزپارٹی نے پنجاب میں اور دیگر علاقوں میں قومی سیاست کی اور سندھ میں علاقائی سیاست کی، کامیاب حکمت عملی اختیار کی اور کچھ حد تک سیٹیں بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی اس کے برعکس اندرون سندھ سے بڑی تعداد میں سیٹیس حاصل کرکے سندھ کی حکومت اپنے ہاتھ میں حاصل کر لیتی۔ یوں اس نے مہاجروں کو سندھ کے ہر سرکاری محکمہ سے خالی کروا کر اپنے حامیوں کو متعین کرنا شروع کر دیا۔ مہاجر سندھ کی حد تک ہر شعبہ میں ناپید ہونا شروع ہو گئے، ہر ادارے میں پیپلزپارٹی کے سندھی ساتھیوں نے بدعنوانی اور کرپشن کے ریکارڈ قائم کرکے ہر ادارے کو تباہی کے دہانے پر لا کر کھڑا کردیا۔ کراچی میں اپنے سب سے بڑے حریف الطاف حسین کی ایم کیو ایم کے خلاف رینجز کے کامیاب آپریشن کے بعد کراچی کی ڈیموگرافی کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ اس طرح سندھ کی تقسیم جس کا آغاز بھٹو صاحب کے دور حکومت میں ہوا تھا وہ اب آصف زرداری اور بلاول کے دور میں مکمل ہو چکا ہے۔ مہاجروں کے ساتھ روہنگیا مسلمانوں کے سلوک کئے جارہے ہیں ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کو سندھ کارڈ دکھا کر بلیک میل کیا جاتا ہے اور ان کو مہاجروں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، دوسری طرف ہر شعبہ زندگی سے مہاجروں کو بے دخل کرکے ہر ادارے میں کرپشن کے ناقابل یقین ریکارڈ قائم کئے جارہے ہیں۔ سندھ کے اندر غیر سندھیوں کی اکثریت کے باوجود صرف اندرون سندھ کے بل بوتے پر تقریباً 12 سالوں سے مسلسل حکومت کرکے ہر ادارے پر اپنا تسلط مضبوط سے مضبوط بنا رہے ہیں۔ ایک طرف جمہوریت اور آئین کے نعرے لگا رہے ہیں دوسری طرف سندھ میں اپنے اختیارات کو آمروں کے اندز میں استعمال کرکے اپنے مخالفین کو دفن کرتے چلے جارہے ہیں۔ کبھی جمہوریت کا نام لے کر دوسری جماعتوں کو اپنے ساتھ شامل کرلیتے ہیں، کبھی سندھ کارڈ استعمال ک رکے عسکری قوتوں کو بلیک میل کرکے سندھ میں اپنا راج اور تسلط کو مستحکم کرتے ہیں۔ وقت اور حالات کو وہ اپنے مقاصد کو استعمال کررہے ہیں ان کے خلاف تمام قوتوں کو پسپائی مل چکی ہے۔ آج ان کی مخالف قوتیں شکست سے دوچار ہیں مگر یہ قوتیں بعد میں کسی اور نام کے ساتھ آجائیں گی آج نواب مظفر یا الطاف حسین کی ایم کیو ایم کو ختم کردیا گیا ہے کل کوئی اور کسی نام سے آجائیں گے۔
ظالموں اپنی قسمت پر نازاں نہ ہوں
دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں