عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 93

سپریم کورٹ کا دھماکہ خیز فیصلہ

جس طرح سے کبھی بھی پوسٹ آفسوں سے دل ہلا دینے والے لیٹر تقسیم کئے جاتے ہیں، بالکل اسی طرح سے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ سے بھی غیر متوقع اور توپ کے گولے نما فیصلے سنا دیئے جاتے ہیں، جو فیصلے نہیں ایک طرح سے گیم چینجر کا باعث بنتے ہیں۔
جی ہاں قارئین آپ لوگ صحیح سمجھیں ہیں۔ میں 23 اکتوبر والے سپریم کورٹ کے اسی فیصلے سے متعلق بات کررہا ہوں جس میں سویلین کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جانے سے متعلق غیر اخلاقی اور غیر انسانی اس قانون کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، شکر خدا کا کہ جس بنچ نے یہ تاریخ ساز فیصلہ جاری کرکے جمہوریت اور انصاف کا سربلند کیا ہے اس بنچ میں خود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس شامل نہیں تھے، ورنہ فیصلہ یہ نہ آتا جو اس وقت آچکا ہے۔ اس فیصلے سے طاقت کے ایوانوں میں اس وقت ایک نہ رکنے والا زلزلہ آچکا ہے یقیناً وہ اس کا تور تلاش کررہے ہوں گے کیونکہ جس دہشت اور دبدبے کے لئے یہ ساری قانون سازی اس امپورٹڈ حکومت سے کروائی گئی تھی وہ سب کی سب فضول میں گئی۔ میں نے کالم کی شروعات پوسٹ آفسوس سے کی تھی، قارئین یقین مانیے پاکستان کا اصل محکمہ ڈاک تو اپنی اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے بلندی کے اس سطح پر پہنچ گیا ہے کہ اسے نیچے لانے کے لئے پرائیویٹ کوریئر کمپنیز کی خدمات حاصل کرلی گئی ہے جن لوگوں سے محکمہ ڈاک صحیح طریقے سے نہیں چلایا جا سکا ان ہی قوتوں نے ملک کے بڑے بڑے اداروں کو ہی پوسٹ آفس میں تبدیل کردیا ہے جس میں سرفہرست ہماری اعلیٰ عدلیہ پولیس کا نظام ہو یا ایف آئی اے اور نیب کا یا پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی خودمختار اور آزادی اظہار رائے پر مٹ مرنے والی میڈیا ملک کے 33 نیوز چینلز جن میں انگریزی کے اخبارات اور چینلز بھی شامل ہیں سبکے سب اس وقت پوسٹ آفس کا کردار ادا کرتے ہیں جو بھی پوسٹ ان کے پاس بھجوائی جاتی ہے اسے نعوذ باللہ آسمانی صحیفہ جان کر اس کی روحکے مطابق اس پر عمل درآمد کیا جاتا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت پاکستانی نیلسن منڈیلا کا ملک میں آنا اور انہیں وزیر اعظم والا پروٹوکول دینا ہے۔ ملک پر ظاہری اور باطنی طور پر حکمرانی کرنے والوں کو شرم آنی چاہئے کہ اس طرح ایک سزا یافتہ شخص کو وزیر اعظم کا پروٹوکول دے کر پوری دنیا میں پاکستان کے نظام عدل کا کیوں مذاق اڑایا جارہا ہے۔ ایک کے ساتھ سوتیلی ماں کا اور دوسرے کے ساتھ شہزدوں والا سلوک؟ آخر یہ کیا مذاق ہے؟ بدنصیب پاکستان کو کیوں بار بار ری پبلک بنانا بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کیوں بحیثیت قوم کے پوری دنیا میں پاکستانیوں کو رسوا کیا جارہا ہے؟ ملک میں قانون کی حکمرانی ہونی چاہئے ہر کسی کو قانون کے آگے جواب دہ ہونا چاہئے؟ کوئی بھی مقدس گائے نہیں؟ چاہے وہ سیاستدان ہو، ججز ہوں، صحافی ہو یا کوئی اور؟ قانون کو ننگی تلوار بن کر بلا امتیاز کے کارروائی کرنے کی ضرورت ہے، تب ہی ملک اور معاشرے اپنا مقام اور اپنی پہچان بناتے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس حالیہ فیصلے کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ ملک کی تمام جمہوریت پسند جماعتوں کو نہ صرف اس فیصلے کی تائید کرنی چاہئے بلکہ اس فیصلے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی ہر طرح کی کوشش کو بھی ناکام بنانا چاہئے اور سپریم کورٹ کے ان دلیر اور بہادر ججوں کی جرات کو سلام بھی کرنا چاہئے جو ملک میں طاری اس افراتفری کے باوجود نہ تو بکے، نہ جھکے اور نہ ہی ڈرے؟
ملک کو اس وقت اسی طرح کے دلیر اور محب الوطن ججوں، بیوروکریٹس اور پولیس افسروں کی ضرورت ہے جو اپنا کام دوسروں کی خوشنودی کے بجائے صرف اور صرف انصاف اور قانون کے تقاضوں کے عین مطابق کرے، جس طرح سے خیبرپختونخوا کے ایک تھانے کے ایس ایچ او عمراننے مراد سعید کے گھر والوںکے خلاف غیر قانونی طور پر مقدمات کے اندراج اور انہیں گرفتار کرنے سے صاف طور پر انکار کرکے جرات مندی اور اصول پرستی کے علاوہ محب الوطنی کی ایک مثال قائم کردی گرچہ اس جرات مندانہ کارروائی پر انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا مگر وہ خیبرپختونخواہ پولیس کا ہیرو بن گیا اسی طرح سے تمام سرکاری افسروں کو اپنا کام آئین اور قانون کے مطابق کرتے ہوئے ملک میں قانون کی حکمرانی کے لئے راہیں ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی میں پاکستان کی فلاح و بہبود اور سلامتی مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں