دائی حلیمہ جو میرے آقا کی ابتدائی پرورش کی سعادت مند تھی کہتی ہیں کہ ”میں اس بچہ کو گود میں لے کر جس طرف جاتی ایک بادل کا ٹکڑا ہمیں سایہ دیتا رہتا تھا“۔ یوں ان خوش نصیب ذات کو اس بچے سے بہت زیادہ انسیت اور محبت ہوگئی جب بھی ان کو یہ احساس ہو جاتا کہ وہ اس بچے سے دور ہو جائیں گی تو وہ کہتی کہ اس شدت افسوس سے میری آنکھوں کی نیند اُڑ جاتی کہ میں اکثر راتیں جاگ جاگ کر گزار دیتی کہ میں اس بچے کے بغیر کیسے رہ سکوں گی؟ بالاخر وہ دن بھی آگیا وہ بچے کو لیکر محسن انسانیت کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہؑ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، دائی حلیمہ کی حالت دیکھ کر میرے آقاٍ کی والدہ نے دائی حلیمہ سے پوچھا کہ کیا تمہارا دل اس بچے کے ساتھ چھوڑنے کو نہیں چاہ رہا ہے تو تم چاہو تو کچھ دن اس بچے کو اپنے پاس رکھو تاکہ میرا بچہ تمہارا ساتھ مزید رہ کر پرورش کرلے۔ حضرت آمنہؑ نے اپنے جگر گوشہ کی نگہداشت کی خاطر اور دائی حلیمہ کے جذبات و احساسات کا اندازہ لگا کر اس ہستی نے اپنے سینے پر پتھر باندھ کر اس عرصہ جدائی کو سہنے کا فیصلہ کیا۔ یوں دائی حلیمہ خوشی خوشی میرے آقا کو واپس اپنے قبیلہ لے گئی جہاں تھوڑے دن بعد جب طاعون کی وبا پھیلی تو پھر انہوں نے اپنی محبت کو اور تمناﺅں کو بچے کی خیروعافیت پر ترجیع نہ دی اور بچے کو دوبارہ حضرت آمنہؑ کی خدمت میں لیکر حاصر ہو گئیں کیونکہ اللہ کی یہ مصلحت تھی کہ بچہ اپنی جنم دینے والی ماں کے پاس باقی عرصہ ان کے ساتھ ہی گزارے۔ اس طرح حضرت آمنہؑ نے بھی اس بچے کے ساتھ ساتھ اس دنیا سے بھی دور ہو گئیں۔ ان سچی ہستیوں کا ذکر کرنے کے بعد میں ایک سچی ماں کی کہانی بھی سناﺅں گا۔ مگر اس پرانی کہانیسے پہلے اپنی زندگی تجبرات اور علم کا تذکرہ بھی ضروری ہے جو کہ پرانے ضرور ہو گئے ہیں، میرے شعور میں اضافے کا باعث ہوئے۔
ٹریننگ کی کلاس بڑے زوروں میں تھی، چیف انسٹرکٹر بڑے موثر انداز سے اپنی ایوی ایشن انڈسٹری کے بارے میں علم کے خزانے کھولے ہوئے تھے۔ معلوم ہو رہا تھا کہ وہ اپنے شعبہ کے انساکلوپیڈیا ہوں۔ محمد عثمان کی دہشت کہیں کہ رعب، ہم جیسے تمام طالب علم ان کی کلاس میں داخل ہوتے ہی سہم سے جاتے وہ ہر ایک ٹرینی کو فرداً فرداً کھڑا کرکے اپنے سوالوں کی نوک پر رکھتے۔ اچھی طرح چھانٹ پھٹکا کر دوسرے ٹرینی کی اس ہی طرح درگت بناتے، دو گھنٹے گزار دیئے، دو گھنٹے بعد یوں محسوس ہوتا کہ ایک طوفان تھا جو گزر گیا۔ ٹریننگ سینٹر میں ہماری ٹریننگ کا آغآز ہوئے بہت دن ہو چکے تھے۔ ایئرلائن میں تمام نئے بھرتی ہونے والوں کے لئے اس ٹریننگ مکمل کرکے 75% سے زیادہ نمبر لے کر کامیاب ہونا لازمی تھا۔ تمام ساتھی اپنی شرارتوں کے ساتھ ساتھ بہت توجہ سے ٹریننگ حاصل کررہے تھے اور یہ ٹریننگ ہو بھی بڑے پروفیشنل انداز میں رہی تھی۔ انسائیکلوپیڈیا قسم کے انسٹرکٹر ہماری ٹریننگ مکمل کرارہے تھے اور ان سب کے سربراہ تھے۔ محترم عثمان صاحب وہ ہمارے کورس میں شامل مضامین کے علاوہ بھی اپنے ایئرلائن کے علم اور تجربہ سے مرعوب کرتے رہتے۔ کیونکہ ہمارا تعلق ایئرلائن کے پسینجر ہینڈلنگ شعبہ سے تھا اس لئے وہ اس کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی پر بھی بہت زور دیتے۔ ایک دنجہاز کی سیکوریٹی کے بارے میں سمجھاتے ہوئے کہنے لگے کہ اس کی سیکورٹی کے لئے انتہائی حساس ہونا لازمی ہے۔ ایئرکریو کو خاص ہدایت دی جاتی ہے کہ اگر جہاز کو خدانخواستہ ہائی جیک بھی کرلیا جائے اور آپ کو یہ بھی معلوم ہو کہ ہائی جیکر صرف ایک ڈمی روبوٹ ہے جس کے ہاتھ میں اسلحہ بھی مصنوعی ہو تو بھی آپ اس کی ہدایت پر عمل کریں اور سیکورٹی رسک نہ لیں کیونکہ جہاز کو یرغمال بنانے والے دراصل اس کے مسافروں کو یرغمال بناتے ہیں۔ جہاز سے زیادہ مسافروں کی خیر و عافیت کو فوقیت ضروری ہے۔ مگر کچھ عرصہ ہی گزرا تھا اسلام آباد سے کراچی آنے والی جمبو 747 کی پرواز کو درمیان سے ہائی جیک کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا گیا جو ایئر لائن کے چیئرمین اور پاک فضائیہ کے مایا ناز سربراہ نور خان کی وجہ سے ممکن ہوا مگر یہ تمام عمل سیکورٹی رسک کی طریقوں کے برخلاف تا کیونکہ اس مزاحمت میں وہ خود زخمی ہوئے اور جہاز کو نقصان ہوا۔ آج کل ہمارے شہروں میں ہر جگہ ڈاکہ زنی عام ہے، ڈاکو گھر میں گھس کر گھر والوں کو یرغمال بنا کر گھر کی تمام قیمتی اشیاءلوٹ لیتے ہیں۔ اگر کوئی مزاحمت کرے تو جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گھر والوں کی محبت اور عزت کی حفاظت کے لئے ان ڈاکوﺅں کو لوٹ مار کی اجازت بادل ناخواستہ دینی پڑتی ہے۔
یہی حال ہمارے ملک کا ہے اس وقت دو فریقوں کی کشمکش میں ہے، ایک فریق دوسرے فریق کو غاصب قرار دیکر مزاحمت کررہا ہے مگر ملک کا اور اس کے عوام کا اور اس کی اقتصادی صورت حال کا کسی فریق کو احساس تک نہیں، دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈتے ہوئے ہیں۔ کسی بھی فریق کو ملک و قوم کا خیال نہیں۔ مجھے ان حالات میں بچپن کی ایک کہانی یاد آرہی ہے جو ہماری جیسی مائیں اپنے بچوں کو اکثر سناتی ہیں۔ یہ کہانی بھی ماں کی ہے۔
ایک نوزائدہ معصوم بچے کو دوسری عورت نے پالا پوسا اس کی خدمت کی اور یوں وہ بچہ جوان ہونا شروع ہوا اور جب کمانے کے لائق ہوا تو اس کی جنم دینے والی ماں آگئی اور مطالبہ کرنے لگی اس بچے کو اب جو جوان ہو گیا تھا اس کے حوالے کیا جائے، پرورش دینے ماں نے کہا کہ بچہ میرا ہے، میں نے اس کی خدمت کی ہے، پرورش کی، پالا پوسا ہے، تم تو اس کو چھوڑ گئی تھیں، جبکہ جنم دینے والی ماں کا اصرار تھا کہ میں نے اس بچے کو جنم دیا ہے، میں ہی اس کی حقیقی ماں ہوں، یہ بچی میرے حوالے کیا جائے۔ جب یہ تکرار بڑھ گئی تو معاملہ قاضی کی عدالت میں چلا گیا۔ قاضی نے دونوں ماﺅں کا موقف سنا، دونوں کے دلائل سنے، دونوں ہی کا برابر کا حق بن رہا تھا، ایک ماں نے جنم دیا، یا دوسری نے پرورش کی، دونوں ہی حق دار تصور ہوتی تھیں۔ قاضی نے معاملہ سلجھانے کے لئے جو ابتدائی فیصلہ سنایا تو اس فیصلے کو سن کر تمام لوگ حیران ہو گئے۔ فیصلہ یہ تھا کہ کیوں کے اس بچے پر جنم دینے والی کا حق تھا تو پرورش دینے والی ماں کا بھی اتنا ہی حق تھا، اس لئے فیصلہ یہ ہوا کہ بچے کو دو حصے کرکے ان دونوں ماﺅں میں برابر تقسیم کر دیا جائے، جب جلاد تلوار سے اس بچے کے دو حصے کرنے والا تھا تو ایک ماں نے تڑپ کر کہا کہ اس کے دو حصے نہ کرو، میں اپنے حصے سے دستبردار ہوتی ہوں، جس ماں نے اپنے حق سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا، قاضی نے اس بچے کو اسی سچی ماں کے حوالے کر دیا۔ یہ تھا اصل فیصلہ جو قاضی کا تھا۔ آج کے حالات میں عمران خان کا موقف ایک ماں کی طرح ہے تو نواز شریف کا موقف دوسری ماں کی طرح۔ ایمپائر قاضی ہے یا پاکستان کے عوام وہ اس سچے فیصلہ کی منتظر ہیں جو دو میں سے ایک ماں کے دستبرداری کے فیصلہ کی منتظر ہے جو فریق بھی اپنے موقف سے دستبردار ہو گا وہ ہی اس بچے یا ملک کا حقیقی خیرخواہ ثابت ہو گا۔ اس موقع پر اس خیرخواہ کا پتا چل جائے گا۔ کون اپنا موقف اپنی انا اپنی ضد کو فوقیت دیتا ہے یا ملک کی خیرخواہی عوام کی فلاح و بہبود، یعنی عمران خان کو اپنے مطالبہ اور اپنا موقف عزیز ہے یا اس ملک کی خیرخواہی اگر عمران خان اپنے ساڑھے پانچ مطالبات پر ہی اکتفا کرکے استعفیٰ کا مطالبہ سے دستبردار ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو اس قوم کا سچا خیرخواہ ثآبت کریں گے یا نواز شریف مستعفی ہو کر دوبارہ نئے الیکشن کا اعلان کر دیتے ہیں تو مجھے یقین ہے پاکستان کے عوام جو اب زیادہ باشعور ہو گئے ہیں ان کو دوبارہ بھرپور اکثریت سے کامیاب کروا دیں گے۔ یوں ان کا ترکی ماڈل کا خواب پورا کرنے میں فوج کے ساتھ عوام کا بھرپور تعاون بھی حاصل ہو گا۔
تیری نظر پر چھوڑا ہے فیصلہ دل کا
آدمی بن کے رہوں یا فرشتہ کی طرح
812