Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 258

سچ اور جھوٹ

دنیا بھر میں سچ اور جھوٹ ساتھ ساتھ چلتا ہے، کسی معاشرے میں سچ زیادہ ہوتا ہے اور کسی معاشرے میں جھوٹ اصول بنا دیا جاتا ہے لیکن کوئی بھی معاشرہ مکمل سچ یا مکمل جھوٹ پر قائم نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ زیادہ جھوٹ پسند کرتا ہے لہذا سچ کی کمی اور سچے آدمی سے بیزاری ہے۔ جہاں سوچ انفرادی ہو وہاں جھوٹ بڑھ جاتا ہے اور جہاں سوچ اجتماعی ہو تو سچائی سے آنکھیں چرانا مشکل ہو جاتا ہے۔ جھوٹ سے معاشرہ تو تباہ ہوتا ہی ہے لیکن ملک بھی کبھی ترقی کی طرف گامزن نہیں ہوتا کیونکہ جھوٹ وقت طور پر چند لوگوں کو فائدہ پہنچا دیتا ہے لیکن ملک میں خون کی کمی ہو جاتی ہے اور ملک کمزوری کی طرف بڑھنے لگتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ جھوٹ کے معاشرے میں رہنے والوں میں ترقی کا کوئی تصور نہیں ہوتا، آج سب کھالو، کل کی کل دیکھی جائے گی۔ جن حالوں میں رہ رہے ہوتے ہیں بس اسی کو زندگی سمجھتے ہیں، ملک کی معیشت تباہ ہو، ملک پر قرضہ ہو، کہا جائے ہر شخص اتنے ہزار کا قرض دار ہے تو نا سمجھ جواب دیتا ہے او بھائی ہوگا، میرے اوپر چند ہزار کا قرضہ مگر مجھے کون سا اپنی جیب سے دینا ہے۔ جہاں یہ سوچ ہو وہاں کے بارے میں کہا جاتا ہے اندھوں کے شہر میں آئینے بیچنا یا گنجوں کے شہر میں کنگھے بیچنا۔
جب مہنگائی بڑھ جاتی ہے، غربت بے روزگاری کا سامنا ہوتا ہے تو رو رہے ہوتے ہیں، لیکن اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے کہ اس تباہی کے ذمہ دار وہ خود ہیں اور یہی سچائی ہے، ایک بدعنوان بے ایمان اور چور لیڈر کے ساتھ اگر پچیس فیصد عوام ہیں تو کیوں ہیں جب کہ وہ جانتے ہیں کہ اس بے ایمان لیڈر نے اپنے دور حکومت میں کیا کیا، بدعنوانیاں نہیں کیں لیکن اس کو دوبارہ لانا چاہتے ہیں اور کسی طور ماننے کو تیار نہیں کہ ان کا لیڈر چور ہے اگر ملک میں چار سیاسی پارٹیاں ہیں تو چاروں کے سپورٹر ان کو ایماندار سمجھتے ہیں اگر یہ سب ہی ایمان دار تھے تو ملک کو اس وقت چائنا کے برابر کھڑا ہونا تھا، دراصل ہر لیڈر کے ساتھ پچیس فیصد لوگ خود بے ایمان اور چور ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ بدعنوان حکومت آئے اور یہ دو نمبری کام کرسکیں، ہر جگہ رشوت دے کر کام نکالیں اور اتفاق سے کسی ایمان دار افسر کے چنگل میں آجائیں تو آگے رشوت دے کر خود بھی بچ جائیں اور اس افسر کا بھی کام لگادیں۔ ایان علی کیس میں یہی ہوا، یہ چاہتے ہیں ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، چوری کھل کر کریں اور کوئی پوچھنے والا نا ہو، یہ کیسے ایک ایمان دار سچے اور بدعنوانی کا خاتمہ کرنے والے شخص کو پسند کرسکتے ہیں۔ سچائی سے لوگوں کو نفرت ہو چکی ہے۔ دونمبری کام سے جو معیار زندگی بلند ہو گیا ہے، جو عیاشیاں ہیں، وہ کیسے ختم کردیں گے، بدعنوانی، چوری اور بے ایمانی سے ممالک غربت کی نچلی سطح پر تو پہنچ جاتے ہیں، بھوک، غربت، افلاس بڑھ جاتا ہے، ملک امداد پر چل رہے ہوتے ہیں لیکن ملک ختم نہیں ہوتے، دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں خاص طور پر افریقہ میں جہاں لوگ بھوک، پیاس سے مر جاتے ہیں اور مختلف وجوہات کی بناءپر ایک زمانے سے لوگ بدحالی کا شکار ہیں لیکن ملک کبھی ختم نہیں ہوتے البتہ ایسے حالات میں آجاتے ہیں کہ دوسرے ممالک کے لئے عبرت بن جاتے ہیں کیونکہ ان کا معاشرہ جھوٹ اور بے ایمانی پر قائم ہوتا ہے، لوگوں کی اکثریت سچ سے نفرت کرتی ہے اور کچھ معاملات میں سچ سننا ہی نہیں چاہتی، لوگ سچ سے نفرت کرتے ہیں، چاہے وہ ملک کے بارے میں ہو، معاشرے کے یا لوگوں کے کردار کے بارے میں ہو۔ سچ زندگی کے بارے میں ہو یا موت کے بارے میں ہو اور دنیا کا سب سے بڑا سچ موت ہی ہے۔ انسان پتہ نہیں کیا کیا پلاننگ کرتا ہے لیکن اسے اپنی موت کی پلاننگ کا معلوم نہیں ہوتا کہ کب کہاں اور کیسے ملاقات ہوگی۔ بے نظیر دوبارہ کرسی پر بیٹھنے اور الیکشن جیتنے آئی تھی لیکن اس آرزو کے پورا ہونے سے پہلے ہی موت نے اسے دبوچ لیا۔ بھٹو اتنی جدوجہد کرکے وزیر اعظم بنا اور اس کے لئے اس نے کیا کچھ نہیں کیا لیکن موت سے دامن نہیں چھڑا سکا۔ بے شمار پروگراموں کے ساتھ ہی چلا گیا، کچھ لوگوں کے نیک ارادوں کی وجہ سے موت انہیں مہلت ضرور دیتی ہے۔ جیسے قائد اعظم جن کا ایک مقصد تھا، ایک نصب العین تھا کہ مسلمانوں کو آزادی دلوا کر جب اپنا مقصد پورا کر چکے تو سکون سے چلے گئے۔
آج کرسیوں کے لئے لڑنے والے چور، بدمعاش، بے ایمان سب ایک ہو گئے ہیں۔ وہ بھی سچ سے نفرت کرتے ہیں، لیکن زندگی انہیں کسی بھی وقت دھوکہ دے کر موت کے حوالے کرسکتی ہے۔ سچ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے لوگ نفرت کرتے ہیں اور سننا ہی نہیں چاہتے، ایک ایسا شخص جس نے اپنے اصل کردار کو جھوٹ کے ملمع میں لپیٹا ہوا ہے اگر آپ اس کا اصل کردار اصل چہرہ عیاں کردیں و وہ آپ کا دشمن ہو جائے گا، کوئی شخص جو لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے اور چوری کرتا ہے اگر آپ نے لوگوں کو اس سے ہوشیار کردیا تو وہ آپ سے نفرت کرنے لگے گا یعنی جرم اس نے نہیں آپ نے کیا ہے۔ اس طرہ کے تمام لوگ موت کو بھولے ہوئے ہیں اور موت کے بارے میں بات ہی نہیں کرنا چاہتے، اگر آپ موت کی حقیقت بیان کرنے لگیں تو معلوم ہے کیا ہوتا ہے۔ یہ واقعہ دیکھیں۔
ہوا یوں کہ بہار کی ایک خوبصورت شام ہم دونوں ساحل پر بیٹھے سورج ڈوبنے کا منظر دیکھ رہے تھے، ریت پر لکیریں پھیرتے ہوئے اس نے کہا تمہاری فلسفیانہ باتیں مجھے بہت پسند ہیں اور یہی چیز مجھے تمہارے قریب لائی، تم زندگی کی حقیقتوں اور سچائیوں کو پوری ایمانداری سے بیان کرتے ہو، اس کی یہ بات سن کر میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا اور اس کو مزید متاثر کرنے کے لئے میں نے کہنا شروع کیا، زندگی کی حقیقتیں اور سچائیاں اپنی جگہ لیکن تمہیں پتہ ہے زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے اور اس سچائی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، میں نے آنکھیں بند کرلیں اور مزید کہنا شروع کیا، کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ کتنے سال اور جئے گا، موت کسی بھی لمحے اسے اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، اب دیکھو ہم دونوں یہاں بیٹھے ہیں، مستقبل کی پلاننگ کررہے ہیں اور ان خوبصورت قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن ہم نہیں جانتے یہ نظارہ ہماری زندگی میں کتنی دیر رہے گا، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں تم سے پہئلے اس دنیا سے رخصت ہو جاﺅں یا تم مجھ سے پہلے موت کی آغوش میں چلی جاﺅ اور میں تمہاری قبر پر سارا سارا دن بیٹھا رہوں، ہو سکتا ہے ہم دونوں لمبی عمر تو جئیں لیکن کسی وجہ سے ایک دوسرے سے بچھر جائیں، نا جانے تمہاری قبر کہاں اور میری کہاں اور پتہ نہیں قبر نصیب بھی ہو یا نہیں۔
یہی اس دنیا کی سب سے بڑی سچائی ہے، یہ سب کہہ کر میں نے آنکھیں کھولیں اور فاخرہ انداز میں اس کی طرف دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ کہیں نظر نا آئی، میں نے دور دور تک نظر دوڑائی اور نا صرف اس وقت بلکہ وہ آج تک نظر نا آئی اور نا ہی رابطہ کیا، نا جانے کہاں ہوگی اور زندہ بھی ہو گی یا نہیں۔ کچھ لوگوں نے تو یہ مضمون بھی پورا نہیں پڑھا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں