اس وقت ملک خداداد پاکستان میں جو نقطہ موضوع بحث ہے وہ تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ کے انتخابات ہیں جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ یہ انتخابات خفیہ رائے شماری سے ہوتے ہیں جس میں ہر صوبائی وزیر اپنے صوبے کے سینیٹ امیدواران کو ووٹ دیتی ہے اور قومی اسمبلی دارالحکومت اسلام آباد کی نشستوں سے انتخابات لڑنے والے امیدواران کو ووٹ دیتے ہیں اور یہ بھی ہر شخص کے علم میں ہے کہ ان انتخابات میں کروڑوں عربوں کی رشوت چلتی ہے۔ ارکان اسمبلی اپنا ووٹ بیچ دیتے ہیں۔ اور اس طرح نہ صرف وہ اپنی جماعت سے غداری کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ اپنے ضمیر، عوام اور اللہ کے سامنے بھی مجرم ٹھہرتے ہیں۔
پاکستان میں سیاست کے ایوانوں میں کرپشن کے واقعات عام ہیں اور بہت نارمل بات سمجھی جاتی ہے اس کی بنیادی وجہ 1985ءکے بعد نواز شریف اور پھر بے نظیر بھٹو کے شوہر اصف زرداری کا بنیادی فلسفہ ہی یہی تھا کہ ہر شخص کی ایک قیمت ہے اور پھر پارٹی کی کلیدی پوزیشنز پر مختلف قسم کے نا اہل لیکن معاشی طور پر طاقتور مافیاز کو لایا گیا۔ صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی اور پھر سینیٹ کے امیدواران کے چناﺅ کو اسی فارمولے کے تحت منتخب کیا گیا۔ اپنی اپنی حکومت سازی اور پھر اقتدار کو دوام دینے کے لئے کرپشن کو عام کردیا گیا اور اس طرح پیش کیا گیا کہ جیسے یہ کوئی جرم نہیں ہے لہذا اسمبلیوں میں ارکان کی بولیاں لگنا معمول کی بات تھی۔ کیوں کہ دونوں بڑی پارٹیوں کی قیادت کرپشن کو برا نہیں سمجھتی تھی۔ چنانچہ پی ٹی آئی نے سیاست دانوں کی جنرل کرپشن پر آواز اٹھائی بلکہ عام انتخابات میں ہونے والی کرپشن کو بھی ہدف نقید بنایا اور ایک ایسے انتخابی اصلاحاتی نظام کو لانے کی کوشش کی کہ جس میں ہارس ٹریڈنگ کو روکا جا سکے اور اسمبلیوں میں بہتر نمائندے لائے جا سکیں۔ اسی مقصد کی تکمیل کے لئے موجودہ سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کو ختم کرکے اوپن بیلٹ لانے کے لئے عمران خان حکومت کوشاں ہیں اور اسے ہر طرف سے پی ڈی ایم جیسے اتحاد کے رہنماﺅں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا ہے جن کی سابقہ تاریخ دیکھی جائے تو دونوں جماعتوں نے میثاق جہوریت میں اس پر اتفاق کیا کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرائے جائیں گے مگر اب یہی جماعتیں بغض عمران خان میں اپنے ہی موقف کی مخالفت کررہی ہیں۔ غیر جانبدار مبصرین کا خیال ہے کہ یہ طریقہ اختیار کرنے سے انتخابات کے بعد دھاندلی کا واویلا مچانے والوں کی زباں بندی ہو جائے گی اور کرپشن ختم ہو جائے گی۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ یہ حق و باطل کی جنگ ہے، ایک طرف عمران خان اپنے ساتھیوں کے ساتھ حق پر ڈٹا ہوا ہے اور دوسری طرف باطل قوتیں کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ فتح ہمیشہ حق اور سچ کی ہوتی ہے۔ دیکھتے ہیں سپریم کورٹ اس صدارتی آرڈیننس کا کیا فیصلہ کرتی ہے جس میں اون بیلٹ کا قانون لایا گیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہاں عدالتیں نظریہ ضرورت کے تحت ماضی میں مارشل لاءکو جائز قرار دے چکی ہیں، یہی فارمولا استعمال کرتے ہوئے انہیں انتخابات کو اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے احکامات جاری کرنے چاہئیں۔ اس سے کرپشن کا راستہ رکے گا اور عدلیہ کا وقار بلند ہوگا۔
پی ڈی ایم نے باہمی رضا مندی سے یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے سینیٹ کا انتخاب لڑنے کے لئے پی ٹی آئی کے حفیظ شیخ کے مدمقابل میدان میں اتارا ہے۔ یاد رہے کہ گیلانی سپریم کورٹ سے توہین عدالت کی پانچ سال نا اہلی کی سزا کاٹ کر حال ہی میں آزاد ہوئے ہیں ان کا ماضی واضح ہے کہ یہ عدالت عظمیٰ سے سزا یافتہ ہیں ان کو تو الیکشن لڑنے کی اجازت ہی نہیں ہونی چاہئے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 2018ءکے صدارتی انتخابات میں تین امیدواروں کے درمیان مقابلہ تھا، پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عارف علوی، مسلم لیگ ن کے مولانا فضل الرحمان اور پی پی کے چوہدری اعتزاز احسن اور اس وقت بھی چوہدری اعتزاز احسن میری نظر میں سب سے قابل، تجربہ کار اور موزوں امیدوار تھے وہ بہت زیادہ مطمئن تھے کہ لوگ ضمیر کے مطابق ووٹ ڈالیں گے اور وہ الیکشن جیت جائیں گے مگر ان کو عارف علوی کے ووٹ کے مقابلے میں صرف 81 ووٹ ملے تو یہ یہی تجربہ پی ڈی ایم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ کرنے جا رہی ہے کہ وہ سب کے لئے قابل قبول ہیں اور ان کو ذاتی حیثیت میں لوگ پسند کرتے ہیں۔ اب تمام جماعتوں کا امیدوار یوسف رضا گیلانی 159 ووٹ لے سکے گا اور پی ٹی آئی کا امیدوار چاہے کوئی بھی ہو وہ 178 ووٹ لے گا اگر یہ بازی پلٹ جاتی ہے تو پھر واضح ہے کہ ضمیر بک گئے ہیں اور ہارس ٹریڈنگ ہو گئی ہے اور اگر رزلٹ قومی اسمبلی کی نشستوں کے حساب سے آتا ہے تو پھر میں سمجھتا ہوں کہ گیلانی کو اعتزاز احسن کی طرح نہ صرف پیپلزپارٹی بلکہ پی ڈی ایم نے قربانی کا بکرا بنا دیا ہے۔ اگر الیکشن اوپن بیلٹ سے ہوئے جس کا قوی امکان ہے تو گیلانی صاحب کبھی بھی نہیں سکیں گے وہ Disgrace ہوں گے۔
469