پاکستان کے سرکاری ٹی وی پر اسلامی فتوحات پر مبنی ترک سیریز ”دیرلیس ارطغرل“ کی تمام تر مخالفت کے باوجود دکھائے جانے سے ایک بات تو روز روشن کی طرح سے عیاں ہو گئی ہے کہ پاکستان نے ترکی کے خلافت سے متعلق اپنی پوزیشن لے لی ہے اور سعودی عرب و متحدہ عرب امارات جو امریکا کے سہولت کار ہونے کا کردار ادا کررہے ہیں ان کے دباﺅ کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان نے یہ پیغام ان قوتوں کو دے دیا ہے جو خلافت کی راہ میں ابھی سے روڑے اٹکا رہے ہیں کہ پاکستان اور ترکی دونوں ایک ہی پیج پر ہیں۔ دونوں کا اسلامک وژن ایک ہی ہے۔۔۔۔
پاکستان کے سرکاری ٹی وی پر ترکی کے اس معروف سیریز کو جو خلافت کی تاریخ سے متعلق ہے دکھانا ایک غیر معمولی واقعہ ہے جب کہ ملکی عوام کا اسے انتہائی تجسس اور پورے دلچسپی اور انہماک سے دیکھنا سونے پہ سہاگہ کا کام کررہا ہے۔ ملکی عوام نے اس طرح سے ڈرامہ میں دلچسپی لے کر اپنا ووٹ حکومت کے پلڑے میں ڈال کر حکومتی پالیسی کی حمایت کا اعلان کردیا۔ پاکستانی عوام کے اس طرح سے خلافت کی حمایت نے ان تمام سیکولر اور اسلام دشمن قوتوں کے پریشانی میں اضافہ کردیا ہے جو پاکستانی مسلمانوں کو روشن خیالی کی جانب دھکیل کر ایک طرح سے اسلام سے دور کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ خلافت کی تاریخ پر مبنی اس ترکی ڈرامہ سیریز میں پاکستانی عوام کی غیر معمولی دلچسپی ایک طرح سے خلافت کے حق میں ریفرنڈم ہے اور پاکستانی عوام کو دوبارہ سے اسلام کے منزل پر لانے کے اس عمل نے وزیر اعظم عمران خان کو مبارکباد کا مستحق بنا دیا جنہوں نے ملک کے سب سے زیادہ بیمار میڈیا پاکستان ٹیلی ویژن کو اس کارخیر میں استعمال کرکے ایک طرح سے مردے گھوڑے میں جان ڈال دی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اسی پاکستان ٹیلی ویژن کے ذریعے 1972ءمیں سیکولر کمال پاشا کو جدید ترکی کا بانی اور اسلام کا ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اسی دور میں پاکستان کے درسی کتابوں میں کمال پاشا کو اسلام کے مجاہد کے طور پر ظاہر کیا جاتا تھا اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ پاکستان ٹیلی ویژن سے تو ایک ڈرامہ سیریز ”انکل عرفی“ میں خاص طور سے اداکار جمشید انصاری کو حسنات احمد کا کامیڈی کردار دے کر اسے خلافت کی نشانی ترک ٹرپی پہنا کر تکرار کے ساتھ یہ کہتے ہوئے دکھایا جاتا تھا کہ ”چقو ہے میرے پاس“۔ ایک اس طرح کا چقو دکھا کر ترکی اور اس خلافت کا تمسخر اڑایا جاتا تھا۔ جس سے پھل بھی نہیں کٹ سکتا تھا۔ اس طرح سے کرکے ترکی اور خلافت تحریک چلانے والوں کا مذا اڑایا گیا اور اس ڈرامے کے ذریعے پاکستانی مسلمانوں کو اسلام اور اس کے اصل اساس سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ آج وہی پاکستان ہے، وہی پاکستان ٹیلی ویژن ہے اور اس پر خلافت پر مبنی ترک ڈرامہ دکھایا جا رہا ہے اور پورا ملک اسے دیکھ رہا ہے۔ سب کچھ وہی پرانا ہے، مگر قیادت بدلی گئی، ویژن بدل گیا، جذبہ اسلام سیاست پر غالب آچکا ہے، ملک کا وزیر اعظم عمران خان براہ راست خود اس سارے معاملات کو ہینڈل کررہا ہے، وہ خود اس میں دلچسپی لے رہے ہیں، وہ خود ملکی عوام کی اسلام سے متعلق ذہن سازی کررہے ہیں، وہ ملکی عوام کو جو سیکولر قوتوں اور ان کے ہمنوا میڈیا کے ذریعے بھٹک رہے تھے انہیں دوبارہ راہ راست پر لا رہے ہیں۔ وہ وہی سب کچھ کررہے ہیں جو کسی رہنما کو کرنا چاہئے۔ وہ انسان سازی کررہے ہیں، عمران خان کی ان تمام تر کوششوں کو سیکولر قوتیں ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہیں اور وہ اپنے اپنے کارڈ استعمال کرتے ہوئے عمران خان کو ترکی کے صدر طیب اردگان کے قریب جانے سے روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بالکل اسی طرح سے جیسے عمران خان کو کوالالمپور ملائیشیا کے اسلامی سمٹ میں جانے سے بروقت روک دیا گیا تھا جس کا بعد میں خود عمران خان کو بھی ملال تھا۔ اسی لئے عمران خان نے اس بار ترکی میں ہونے والی اسلامی کانفرنس میں شرکت کے لئے پہلے سے اس ڈرامہ کو نشر کرنے کی شکل میں ایک پیج تیار کرلی ہے تاکہ انہیں اپنی اننگ کھیلنے میں کسی بھی طرح کی کوئی دشواری نہ ہو اور کوئی دوست اور ہمدرد بن کر اسے دھوکہ نہ دیں۔ ہو کیا رہا ہے؟ عالمی سیاست کی بساط الٹ رہی ہے، نئی گروپ بندیاں ہو رہی ہیں، طاقت کی لگامیں امریکہ کے ہاتھ سے نکل رہی ہیں، امریکہ گیدڑ بھبکیوں کے ذریعے عربوں سے وصولی کررہا ہے اور عربوں کو ہی خلافت کی شکل میں ان کی جانب بڑھنے والی موت سے ڈرا رہا ہے اور ایٹمی قوت سے مالا مال واحد اسلامی ملک پاکستان کو ان ہی عربوں کے ذریعے پیار محبت سے قابو کروانے کی کوشش کررہا ہے۔ پاکستان کا شمار ان پانچ ملکوں روس، چین، ترکی اور ایران میں ہونے لگا ہے جن کا مستقبل کے عالمی سیاست میں کلیدی کردار ہو گا اور یہ بھی چہ مہ گوئیاں اڑی ہوئی ہیں کہ ان کا ممکنہ طور پر سپرپاور کے طور پر اتحاد بھی ہو سکتا ہے۔ اس ساری صورتحال کو ڈی فیوز کرنے کے لئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو خاص ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ عمران خان کو خلافت اور ترکی کے سحر سے باہر نکالے بصورت دیگر اپنے ملکوں میں کام کرنے والے پاکستانیوں کو بے دخل کرنے کی دھمکی دے دیں۔ یہ وہ بلیک میلنگ ہے جس کا استعمال ملائیشیا کے اسلامی کانفرنس کے وقت بھی کرکے عمران خان کو اس کانفرنس میں شرکت سے روک دیا تھا اور اب وہی قوتیں یہ ہی کارڈ ترکی کے محاذ پر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں جب کہ دوسری جانب قطر میں پاکستانیوں کے لئے مزید اسامیاں پیدا کی جارہی ہیں۔
عمران خان کے ارادوں کو ناکام بنانے کے لئے خود پاکستان میں سیکولرز پارٹیوں اور سیکولرز مائنڈ میڈیا کو نئے سرے سے متحرک کیا جارہا ہے جب کہ پاکستانی فنکاروں میں حکومت کے خلاف پھونک مارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ عمران خان کی سیاست اور ان کے وژن کو پاکستانی دانشوروں اور میڈیا کے مقابلے میں مغرب کے دانش ور اور میڈیا زیادہ بہتر طور پر سمجھتا ہے اسی وجہ سے عمران خان کے ہر بیان اور ہر ٹوئیٹ کو نہ صرف ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے بلکہ اس پر سنجیدہ ردعمل بھی آتا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سرکاری ٹی وی سے ترکی کے بنائے گئے خلافت سے متعلق ڈرامہ سیریز کو تواتر کے ساتھ دکھائے جانے اور اس پر پاکستانی قوم کے دلچسپی سے دیکھنے نے مغربی حلقوں میں ہل چل مچا دی ہے جس سے ملکی میڈیا دانستہ نظریں چرا رہا ہے اور اس ڈرامے کے نشر کرنے پر طرح طرح کے بے تکے تبصرے کرکے اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ اسی طرح سے پاکستانی قوم کی رہنمائی کرکے انہیں جھوٹ اور منافقت کی سیاست کا ایندھن بننے سے بچاتے ہوئے اپنے دین اسلام کا سپاہی بنانے کے اپنے عزم کو جاری رکھے اور انہیں دین کی اہمیت سے آگاہ کریں۔ انہیں اپنے ملک ملت اور مذہب کا سچا پیروکار بنائے یہ ہی حالات اور ایک بدلتے ہوئے پاکستان کا تقاضا ہے۔ جس میں پاکستان کی ترقی مضمر ہے۔
434