عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 768

شریفی تکبر اور انصاف

یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ ہر دور میں فرعون کے لئے کوئی نہ کوئی موسیٰ پیدا ہوتا ہے، اسی طرح سے پاکستان کے موجودہ سیاسی صورتحال میں موسٰی کے کردار کے طور پر عمران خان ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ان کی کاوشوں کی وجہ سے سریوں سے تنی ہوئی گردنیں بھی جھکنے کے لئے قانونی پہلوﺅں کے طفیل پر تول رہی ہیں۔ اس کا ہونا میرے نزدیک کسی بھی طرح سے معجزے سے کم نہیں جس کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ جن کے ساتھ یہ سب کچھ ہو رہا ہے وہ ابھی تک اس کے لئے ذہنی طور پر تیار ہی نہیں ہو رہے ہیں۔ اپنے گرد لاﺅ و لشکر دیکھ کر وہ اب بھی قانون اور انصاف کو اپنی باندی سے زیادہ اہمیت نہیں دے رہے اسی طرح کے تمہیدی جملے موجودہ سیاسی منظرنامے کی صحیح عکاسی کرسکتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ قانون اور انصاف کے عین مطابق ہو رہا ہے سب کو اس پر حیرت اس لیے ہو رہی ہے کہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا، پہلے اس طرح سے انصاف اور قانون نے کبھی حکمرانوں کی دہلیز پر قدم رکھنے کی جرات نہیں کی اس لیے خود قانون و انصاف کو بھی اپنی اس حرکت پر حیرت ہو رہی ہو گی لیکن جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس سے انصاف اور قانون کا سر بلند ہو رہا ہے۔ قانون سازوں کی نظروں میں بھی قانون کی قدر و منزلت بڑھ رہی ہے۔ کس طرح سے ان کے بنائے جانے والے قوانین خود ان کے گلے کا پھندہ اور پیروں کی بیڑیاں بن رہی ہیں اس طرح کے عملی صورتحال سے گزرنے کے بعد وہ اب قانون سازی میں زیادہ احتیاط سے کام لیں گے۔
ذکر عمران خان کے انصاف کی پکار کا ہو رہا تھا، ایسی پکار جس نے حکمرانوں کی اس سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔۔۔ جس پر وہ پچھلے 35 برسوں سے بلا کسی شرکت غیرے حکمرانی کررہے تھے اور اب بھی ان ہی کی حکمرانی چل رہی ہے وہ اپنے حکمرانی کے دوران اپنے ہی عدالتوں کے سامنے عادی مجرموں کی طرح سے عدالتی دربان کی آواز لگانے پر ان ججوں کے سامنے پیش ہو رہے ہیں۔ جنہیں کلتک وہ برطرف جج جسٹس قیوم کی طرح سے اپنے وفادار ملازم سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے تھے لیکن اب ان کی سمجھ میں قانون انصاف اور عدالتیں سب ہی آگئی، یہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ اس ساری عدالتی کارروائی کو اپنے رسوائی اور سیاسی انتقام سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے وہ مسلسل خود کو اور عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے آئے روز جلسے اور جلسیاں کرتے ہیں اور اس عدالتی کارروائی کو سیاسی انتقام کا نام دے رہے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں انہوں نے ایک بار بھی ان الزامات یا ان مقدمات کے بارے میں نہ تو عوام کو کچھ بتالایا ور نہ ہی متعلقہ اداروں کو اپنی بے گناہی کے ثبوت پیش کیے۔ ثبوت ہوتے تو وہ پیش کرتے، اسی وجہ سے وہ اپنا یہ مقدمہ قانونی لحاظ سے مکمل طور پر ہارنے کے بعد سیاسی انداز سے جیتنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اپنی بے گناہی آئینی عدالتوں سے ثابت کرانے کے بجائے عوامی عدالت یعنی عوامی اجتماع میں لوگوں سے زبردستی ”ہاں“ کہلوانے کی صورت میں ثابت کروا رہے ہیں۔ میرے خیال میں انصاف اور قانون کے ساتھ اس سے بڑا گھٹیا اور سنگین مذاق اور کیا ہو سکتا ہے اور اس سے بھی زیادہ دکھ اور افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ یہ مذاق اور تماشہ کوئی اور نہیں وہ شخص لگا رہا ہے جو بدقسمتی سے تین بار اس ملک کا وزیر اعظم رہ چکا ہے وہ خود کو خاندان والوں اور اپنی لوٹی ہوئی کھربوں کی دولت بچانے کے لئے باوئلے کتنے کی طرح سے بھاگ دوڑ کررہ اہے۔ میری تحریر میں تلخی اور گندگی اس لیے آگئی ہے کہ یہ شخص ”میں نہیں تو کچھ بھی نہیں“ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے پورے ملک کو داﺅ پر لگا رہا ہے وہ تمام اداروں کو تباہ کرکے ملک کو تہس نہس کرنے جارہا ہے اسے اگر جلد ہی اس کے اصل مقام پر نہیں لے جایا گیا تو وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اس لیے ملک کے سلامتی کے اداروں کو چاہئے کہ وہ اس سارے صورتحال میں خاموش تماشائی بنے رہنے کا سلسلہ اب بند کرتے ہوئے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کریں اس ملک کو مزید ڈگڈگی کا تماشہ نہ بنائیں، ملک میں جمہوریت کی آڑ میں لاقانونیت اور لوٹ مار کے اس سلسلے کو فوری طور پر بند کروائیں اور قومی خزانہ لوٹنے والے سیاستدانوں کو عوامی عدالت میں جانے کا ڈھونگ رچانے سے روکیں انہیں قانون و انصاف کا پابند بنائیں اور ان تمام بیوروکریٹس کے خلاف ریاستی قانونی کے تحت سخت تادیبی کارروائی کریں جو ریاست سے زیادہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ذاتی ملازم ہونے کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کے اشارے پر قلم چھوڑ ہرٹال کرکے ریاست کی بنیادوں کو ہلانے کا باعث بن رہے ہیں۔ پورے ملک کو انتخابات اور اس کے نتائج کے گورکھ دھندے پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پاکستان کا ہر شخص اپنے ملک میں کیے جانے والے انتخابات اور ان کے نتائج کے بارے میں بخوبی جانتا ہے ہر کسی کو معلوم ہے کہ یہ ”روپے اور مرتبے“ کا کھیل ہے۔ جس کے پاس جتنا زیادہ روپیہ اور جتنا بڑا مرتبہ ہے، وہ اتنا ہی زیادہ انتخابات پر اثر انداز ہوسکتا ہے اسی وجہ سے ایک طبقہ بار بار حکمرانی کا مزا لوتتے ہوئے ملک کو بربادی دنیا ہی کے دہانے پر پہنچا رہا ہے اسی لیے ملکی سلامتی کے اداروں کو چاہئے کہ وہ ملک میں قانون اور آئین کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لئے ہر اس ادارے کے پشت پر کھڑے رہیں جو یہ فرائض سر انجام دیتے ہوئے وقت کے فرعونوں کو قانون اور آئین کے سامنے جھکانے کا باعث بن رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں