ممبئی: بالی ووڈ میں مارکیٹنگ کے انداز بدلنے والا اداکار
عامر خان کو بالی ووڈ فلم انڈسٹری کا غیر روایتی سپراسٹار تصور کیا جاتاہے.عامر خان نے1988ءمیں ’قیامت سے قیامت تک‘میں لور بوائے کی حیثیت سے کامیاب ترین پہلی فلم کے باوجود اس کردار کی چھاپ نہ لگنے دی۔
میڈیاکے مطابق حالانکہ ’قیامت سے قیامت تک‘ اُن کی پہلی فلم نہیں تھی لیکن بالی ووڈ کے پرستاروں نے عامر خان کو پہلی بار ایک سپر اسٹار کے روپ میں دیکھا۔
1990ءکے آخر تک اُن کی مزید پانچ فلمیں سنیما گھروں کی زینت بنیں ، جن میں ’دل‘کامیاب رہی۔
جب سے ہرسال وہ کم ازکم ایک کامیاب فلم ضرور دے رہے ہیں، دل ہے کہ مانتا نہیں(1991)، جو جیتا وہی سکندر(1992)، ہم ہیں راہی پیار کے(1993)، رنگیلا(1995)، راجہ ہندوستانی(1996)، عشق (1997)، غلام (1998) اور سرفروش(1999) نے اُنہیں ایک قابل اعتبار برانڈ بنا دیا۔
سال2000ءمیں وہ بزنس کے اعتبار سے کوئی کامیاب فلم نہ دے سکے، اس سال ’میلہ‘ریلیز ہوئی جو شائقین کو متاثر نہیں کرسکی۔
اگلا برس اُن کے اور ہندی فلم انڈسٹری کے لئے گیم چینجرز ثابت ہوا، فلم ’لگان‘ اور ’دل چاہتا ہے ‘بالی ووڈ کی کامیاب ترین فلمیں ثابت ہوئیں۔
لگان نے بالی ووڈ کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرایاتو ’دل چاہتا ہے‘نے فلموں اور پاپ کلچر میں شائقین کے بدلتے رجحان کا مظاہرہ کیا۔
عامر خان اب مارکیٹنگ کے ماہر بن چکے ہیں،ا±ن کی فلمیں اچھا پیکیج تھیں اور انہیں اسمارٹ مارکیٹنگ کے ذریعے آگے بڑھایا گیا۔
’لگان‘ اور’ دل چاہتا ہے‘ نے ثابت کیا کہ کس طرح عامر خان مداحوں کے مزاج کو سمجھتے ہیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ا±ن کے بڑے حریف بڑھتی عمر کے ساتھ جدوجہد کررہے تھے اور رومانوی کے علاوہ دیگر کردار ادا کرنے کو تیار نہیں تھے جبکہ عامر خان مسلسل خطرات مول لے رہے تھے۔
عامر خان جانتے تھے کہ لوگ ان کی اگلی فلم کے منتظر ہیں لہٰذا وہ اپنے کردار کو مارکیٹنگ حکمت عملی میں تبدیل کرلیتے۔2005ءمیں’منگل پانڈے دی رائزنگ‘ میں اُن کی مونچھیں اور لمبے بال ہیڈ لائنز کی زینت بنے۔ یہ فلم کو خبروں میں رکھنے کا حربہ تھا، اس سے پہلے اداکاروں نے اس جیسا کچھ نہیں کیا تھا۔
بالی ووڈ اداکار کے سوشل میڈیا پر سرگرم میدھا پاٹیکر کے ساتھ عوامی پلیٹ فارمز پر آنے سے 2006ءمیں ریلیز ہونے والی فلم ’رنگ دے بسنتی‘توجہ کا مرکز بنی۔
عامر خان نے 2007ءمیں ’تارے زمین پر‘میں بالکل مختلف کہانی پر کام کیا، اس فلم پر ا±ن کا بہت کچھ داﺅپر لگا ہواتھا لیکن اُس وقت تک وہ قابل اعتبار برانڈ بن چکے تھے ، ’تارے زمین پر‘ ہٹ فلم ثابت ہوئی۔
عامر خان جانے تو یا جانے نہ (2008، پروڈیوسر)، گجنی(2008)، تھری ایڈیٹس(2009)، پیپلی لائیو(2010)، دھوبی گھاٹ(2011) اور دہلی بیلی(2011،پروڈیوسر) کے ساتھ رفتہ رفتہ چالاک بزنس مین بن گئے۔
فلم گجنی میں عامر خان نے جسمانی تبدیلی اور میک اپ کے ساتھ شہر شہر گھوم کر شائقین کو حیرت زدہ کردیا کیونکہ وہ ہمیشہ جانتے تھے کہ فروخت کرنے کے لئے کیا ہے۔ انہوں نے فلمیں ہمیشہ خود کے بارے میںبنائیں اور ہمیشہ اچھا مواد پروڈیوز کیا۔ انہوں نے خود کو عام آدمی کے طور پر پیش کیا جو سمجھتا ہے کہ نوجوان کیا چاہتے ہیں۔
عامر خان نے دھوم (2013 )اور پی کے (2014) جیسی مزید کامیاب فلمیں دیں۔
انہوں نے بھارتی مارکیٹ پر پہلے ہی قبضہ کرلیا تھا اور اورسیز بھی اُن کی موجودگی تھی لیکن چین ایک ایسا ملک تھا جسے نظرانداز کیا گیا۔ حالانکہ چین پہلے ہی ہالی ووڈ فلموں کے لئے اہم مارکیٹ تھا لیکن بھارتی فلم انڈسٹری نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا،حقیقت میں کسی بھی بڑے پروڈیوسر ایسی مارکیٹ میں داخل ہونے کا نہیں سوچا جہاں تھیٹرز کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔
چین میں ہرسال غیر فلموں کی ریلیز کا کوٹہ ہوتا ہے لیکن بھارتی فلموں کو سنجیدگی سے لینے کے لئے ’دنگل‘کا انتظار کیا جارہا تھا۔عامر خان بھارتی فلموں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو جان چکے تھے کیونکہ تھری ایڈیٹس اور پی کے وہاں اچھا بزنس کر چکی تھیں۔
لیکن ’دنگل‘ نے بے مثال کامیابی حاصل کی،فلم نے چین میں 18سو 50کروڑروپے سے زائد کا بزنس کیا، کسی بھی بھارتی فلم کو اس قد رپزیرائی نہیں ملی بلکہ کسی نےخواب میں بھی ایسا نہیں سوچا ہوگا۔
عامر خان کی چین میں مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کی فلم ’سیکریٹ سپر اسٹار‘ نے چین میں بھارت کے مقابلے میں دس گنا زیادہ کمائی کی۔
عامرخان کی نظریں اب تائیوان اور ہانگ کانگ جیسی مارکیٹوں پر ہے جو ہالی ووڈ فلموں کے لئے بڑی نہیں لیکن بھارتی فلموں کے لئے اہم ثابت ہوسکتی ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اہم ایشیائی مارکیٹس میں عامر خان کی اتھارٹی کی شروعات ہے۔
اگرایسا ہوگیا تو وہ دنیا بھر میں ہالی ووڈ کے متوازی قوت بن جائیں گے اور ممکن ہے عامر خان ’ٹھگس آف ہندوستان‘کے ساتھ یہی منصوبہ بندی کررہے ہوں۔
530