عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 112

عدالتیں یا ڈاک خانے؟

پاکستان میں عدلیہ کتنی آزاد ہے اس کا اندازہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان چھ ججز کی مشترکہ درخواست سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھجوائی تھی جس کا تاحال کوئی حل سامنے نہ آسکا اور اسے حیلے بہانوں سے روکنے یا پھر التواءمیں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
پاکستان کے عدالتی تاریخ میں پہلی بار ہی ججوں نے مشترکہ طور پر اس اہم ترین مسئلے پر آواز اٹھائی ہے کہ عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے والے عناصر کے خلاف کس فورم پر اور کس طرح سے آواز اٹھائی جا سکتی ہے جس میں ان ججز نے ایک طرح سے رہنمائی حاصل کرنے کی استدعا کی ہے۔ بہت ہی دانشمندی سے بچ بچاﺅ کرتے ہوئے اپنے سروں پر مداخلت کی لٹکی ہوئی تلواروں کو گرانے کی کوشش کی ہے پھر یہاں وہی پرانا گھسا پٹا سوال سامنے آجاتا ہے کہ ”بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا“۔
6 ججوں نے استدعا اپنے سے بڑے جج سے کی ہے، ہے تو وہ بھی جج، کوئی جرنل یا جرنلسٹ تو نہیں۔۔۔ کہ ہمت اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ بلی کے گلی میں گھنٹی باندھے تاکہ جب کوئی ججوں کو اپنے مطلوبہ فیصلے حاصل کرنے کے لئے کسی طرح کا دباﺅ ڈالے تو گھنٹی بجنے کی صورت میں سب کو خبر ہو جائے۔ اس ساری کارروائی میں ایک جو سب سے بڑا فائدہ یا پھر راز جو فاش ہوا وہ یہ کہ پاکستان کی نہ تو عدلیہ آزاد ہے اور نہ ہی ان کے فیصلے کوئی قانون و انصاف کے عین مطابق ہے بلکہ ان چھ ججز کی اس مشترکہ درخواست سے اب یہ بات روز روشن کی طرح سے عیاں ہوچکی ہے کہ پاکستان کی عدالتیں اب پوسٹ آفس بن چکی ہیں۔ کوئی لوکل، کوئی صوبائی سطح پر اور کوئی مرکزی سطح پر۔۔۔ اور جو ان ڈاک خانوں کا کام ہوتا ہے وہی کام اب ان عدالتوں میں بیٹھے معزز جج صاحبان پوسٹ ماسٹر یا پھر چیف پوسٹ ماسٹر بن کر کررہے ہیں۔ ڈاک کہیں اور سے آتی ہے اور یہ صرف آنے والی اس ڈاک پر اپنی مہریں اسٹامپ لگا کر آگے بھجوادیتے ہیں یا پھر کسی کے ٹیلی گرام یا پھر تار آنے کی شکل میں انہیں پڑھ کر سنا دیتے ہیں۔ یہ ہی کام اس وقت پاکستان کی عدلیہ کا بن گیا ہے۔ یہ کام کوئی پہلی بار نہیں ہو رہا ہے۔ اس سے قبل بھی ہوا کرتا تھا مگر تناسب نہ ہونے کے برابر تھا اور اس طرح سے کھل کر بلاخوف و خطر یا پھر بے شرمی اور ڈھٹائی کی حد تک نہیں کیا جاتا تھا۔ جس طرح سے اس وقت کیا جارہا ہے کہ مقدمہ کے فیصلے سے پہلے ہی پوری کی پوری عبارت ہی بار آجاتی ہے یعنی فیصلے کہیں اور کئے جاتے ہیں اور اس کا اعلان کہیں اور کیا جاتا ہے۔ اس نا انصافی اور پاکستانی عدلیہ کو بے موت مرنے سے بچانے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے انتہائی بہادری اور دلیری کے ساتھ اپنی زندگیوں کو اور اپنی نوکریوں کو خطرہ میں ڈال کر یہ قدم اٹھایا ہے۔ اس پر ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ کافی دنوں بعد اس اہم ترین موضوع پر لکھنے کی جسارت اس لئے کررہا ہوں اور ان ججز کی زندگیوں اور ان کی عزتیں اب خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دلیر جج بابر ستار کی کردار کشی شروع کردی گئی ہے اور کچھ عرصے بعد ان پر ملک دشمنی جیسے سنگین الزامات بھی لگنا شروع ہو جائیں گے کیونکہ ان سب نے حق اور سچ کے لئے آواز بلند کی ہے اور جس طرح کے انتقامی فیصلے ریاست اپنے مخالفین کے خلاف عدالتوں سے کروا کر نظام انصاف کا بیڑہ غرق کررہی ہے اسے روکنے کے لئے ان ججز نے مشترکہ طور پر آواز اٹھائی ہے۔ پاکستان کی سول سوسائٹی اور کورٹ بار ایسوسی ایشن کو ان ججز کے پشت پر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان عدلیہ کو ہتھیار کے طور پر کسی کو استعمال کرنے کی جرات اور ہمت نہ ہو۔
یاد رہے ظلم اور کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے مگر نا انصافی کی نہیں اگر ملک کو بچانا ہے تو ہمیں انصاف کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا اور ملک میں قانون کی بالادستی کو قائم و دائم رکھنا ہوگا۔ اسی میں پاکستان کی سلامتی اور اس کی ترقی مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں