عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 74

عدالتی بغاوت

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز جہاں قابل تعریف ہیں ان کی ہمت ان کی عظمت اور ان کی زندہ ضمیری کو 21 توپوں کی سلامی دینے کی ضرورت ہے وہیں پر موجودہ حکومت کی بے شرمی اور ڈھٹائی پر ہزار بار لعنت بھیجنا ہر محب الوطن پاکستانی اور انسانی حقوق اور جمہوریت کے لئے پرعزم پاکستانیوں پر واجب ہو گیا ہے کیونکہ جو کام ان نام نہاد جمہوریت اور انسانی حقوق کے علمبرداران سیاستدانوں کو کرنا چاہئے تھا وہ کام وہ خود تو نہ کرسکے اور جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان چھ ججوں نے ہمت اور جرات کرکے جب یہ کام کرلیا تو بجائے انہیں داد دینے کے حکومت خود ان کے پیچھے کتوں کی طرح سے پڑ گئی اور میڈیا میں ان کا ایک طرح سے ٹرائل شروع کردیا گیا جسے ان ججوں نے ان کے انصاف کے کاموں میں مداخلت کرنے پر واویلا مچا کر کوئی بہت بڑا جرم کیا ہ ے۔
اسلام آباد کے 6 ججوں کا یہ خط ایک طرح سے موجودہ حکومت اور ان قوتوں کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے جو عدالتی نظام کو گھر کی لونڈی اور ججز کو اپنا مزارع سمجھ کر ان کو ڈکٹیٹ کرکے ان سے اپنے مخالفین کے خلاف جس طرح کا چاہے وہ فیصلہ لیتے تھے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ اس اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے یہ جراتمندانہ اقدام کرکے عدالتی تاریخ میں خود کو امر کردیا ہے جہاں کا چیف جسٹس سب سے زیادہ ان قوتوں کا تابعدار یا پھر غلام بنا ہوا ہے جن کے سارے کے سارے فیصلے ہی ان قوتوں کے ہوا کرتے ہیں جو ان دنوں بلاشرکت غیرے ملک پر حکمرانی کررہی ہے۔ اس لحاظ سے تو اس چیف جسٹس کے لئے بھی یہ ڈوبنے کا مقام ہے کہ اس بدلتی ہوئی صورتحال میں تو انہیں خود ہی اپنے منصب سے مستعفی ہو جانا چاہئے کیونکہ ان کی عدالت کے 6 ججوں نے اس طرح سے خط لکھ کر خود ان پر بھی عدم اعتماد کیا ہے۔ چیف جسٹس ہونے کے ناطے انہیں اپنے خدشات اور تحفظات سے انہیں آگاہ کرنا چاہئے تھا لیکن انہوں نے چیف جسٹس کو نظر انداز کرکے براہ راست سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اپنا خط بھجوایا ہے جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ججز بھی اپنے چیف جسٹس کی مجبوریوں یا پھر کمزوریوں سے واقف ہیں اس لئے انہوں نے چیف جسٹس کو زحمت نہیں دی۔ اسلام آباد کے ان چھ ججز کی اس درخواست کی وجہ سے ان عدالتوں سے سنائے جانے والے تمام کے تمام فیصلے ہی اب مشکوک ہوچکے ہیں اور یہ تاثر اب تقویت پکڑ رہا ہے کہ وہ فیصلے انصاف پر مبنی نہیں تھے۔ وہ سارے کے سارے فیصلے ڈکٹیٹ شدہ تھے۔ چھ ججز کے خط سے کوئی اندھا اور احمق شخص بھی یہ اندازہ لگا سکتا ہے اور سونے پہ سہاگہ ججز نے اپنے ساتھ ہونے والے اس ناروا سلوک کے ازالے کے لئے اپنے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ چیف جسٹس نے پہلے اپنی جان چھڑانے کے لئے معاملہ ایگزیکٹو کے حوالے کردیا اور وزیر اعظم نے ایک کمیشن کا اعلان کردیا اس سے زیادہ مذاق ان چھ ججز کے بھجوائے جانے والے خط کے ساتھ اور کیا ہو سکتا ہے؟ کہ جن قوتوں سے ان ججز کو شکاتیں ہیں ان ہی کے پاس ان کی انکوائری بھجوا دی گئی جو حکومت خود ان قوتوں کی مدد سے چور راستے سے وجود میں آئی ہے وہ کس طرح سے منصفانہ طریقے سے کمیشن کے ذریعے ان کے تحفظات کو دور کرسکے گی۔
یہ تو شکر ہے کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی جنہیں کمیشن کا چیئرمین بنایا گیا تھا انہوں نے خود ہی اس کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرلی جس کے بعد اب بحالت مجبوری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس لے کر اس معاملے پر ایک 7 رکنی بنچ تشکیل دے دیا ہے جو ان 6 ججز کی درخواست پر سماعت کرے گا۔ یہ ایک بہت ہی اہم معاملہ ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ ججز کو خود اپنی ہی اعلیٰ عدالت سے انصاف ملتا ہے یا کہ ان کے تحفظات خود اعلیٰ عدلیہ کے طرزعمل اور ان کے فیصلے پر بھی کسی نہ کسی طرح سے صادق آنے کا تاثر دے گئی۔ اس اہم کیس سے پاکستان کے اعلیٰ عدلیہ کے انصاف کے معیار کا پتہ چل سکے گا کہ پاکستان کی عدلیہ کتنی آزاد ہے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں