نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 215

عمران خان اور بیورو کریسی آمنے سامنے کیوں؟

سیاستدانوں کے آپس کے جھگڑے ہی سیاسی صورتحال کی حقائق کو بے نقابی کا سبب بنتے ہیں ابھی بھی اعلیٰ حضرت مولانا صاحب کے رفقاءکے جوش خطابت نے تحریک انصاف اور پی پی کے ہنی مون منانے کا راز فاش کر دیا ہے اور اب یہ بات بھی روز روشن کی طرح سے عیاں ہو گئی ہے کہ بلدیہ ٹاﺅن کے ضمنی الیکشن اور اس کے نتائج کی حقیقی کیا تھی؟ مولانا کے رفقاءنے سب کچھ کھول کر رکھ دیا ہے اور ایسے لگ رہا ہے کہ وہ پی پی پی کو اکیلے ہنی مون نہیں منانے دیں گے بلکہ وہ اس میں اپنا حصہ بھی مانگ رہی ہے جس کا مطالبہ یا تقاضہ اس طرح کے بیانات کی شکل میں کر لیا گیا ہے اور ایک خاموش پیغام بھی زرداری صاحب کو بھجوا دیا گیا ہے۔ یہ ہی حال میاں برادران کا بھی ہے جو کام وہ کرنے کے خواہش مند تھے وہی کام زرداری نے کردیا جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن میں بھی ایک ہل چل سی مچی ہوئی ہے اور پی ڈی ایم کے غبارے میں سے ہوا خودبخود نکلتی جارہی ہے۔
مفادات کا کھیل ہے جس طرح کا ایک واقعہ مرزا غالب کے لئے اکثر نقل کیا جاتا ہے کہ شراب نہ ملنے کی وجہ سے مغرب کے وقت مسجد جانے کا ارادہ کیا۔ مسجد کے دروازے پر ابھی قدم ہی رکھا تھا کہ کسی جانب سے ساقی کی صدا بلند ہوتی ہے کہ مرزا جی کام ہو گیا اور مرزا اسی وقت مسجد سے عبادت کئے بغیر ہی لوٹ پڑتے ہیں جس پر نمازی انہیں روک کر پوچھتے ہیں کہ کدھر چلے مرزا جی، ابھی تو نماز شروع بھی نہیں ہوئی جس پر مرزا کا برجستہ طور پر یہ جواب ہوتا ہے کہ جس مقصد سے آئے تھے وہ مقصد پورا ہو گیا یعنی ان کی دعا سن لی گئی۔
یہ ہی حال پی پی پی کا پی ڈی ایم میں شامل ہونے کا تھا اب جب ان کا مقصد پورا ہو ہی گیا تو پھر انہیں اتنے لمبے چوڑے ایکسرسائیز کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے یہ وہ حقیقت ہے جس سے ملکی عوام تو شاید باخبر نہ ہو لیکن سیاستدان اور خود باخبر میڈیا والے ضرور واقف ہیں اس لئے مولانا صاحب اپنے پیادوں سے مسلسل پی پی پی کی اعلیٰ قیادت پر لفظوں کی گولہ باری کررہے ہیں۔ پی پی پی کے رہنما کنڈی کو تو یہاں تک کہہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے قد کو دیکھ کر دوسروں پر الزامات لگائیں۔ مولانا کے حامیوں نے پی پی پی پر کھل کر تو یہ الزام نہیں لگایا کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملا دیا ہے مگر اتنا ضرور کہا ہے کہ پی پی پی تحریک انصاف کی بی ٹیم بن گئی ہے اور اس وقت وہ عمران خان کی حکومت کو پوری طرح سے سہارہ دے رہے ہیں۔
مولانا اور ان کے حامیوں کے یہ الزامات ہر لحاظ سے ہیں مگر ان کے الزامات لگانے کی وجہ کچھ اور ہے جس کا مقصد محض زرداری سے اپنا حصہ مانگا تھا ان کی کوئی اصلاح کرنا یا پھر پی ڈی ایم کو اس طرح کے اندرونی خطرات سے بچانا نہیں تھا اس لئے لفظوں کی اس گولہ باری کے باوجود مولانا اور ان کے حامی ابھی تک اپنے کسی مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے البتہ پی پی پی کے جمہوری پارٹی ہونے کا بھانڈا ضرور مولانا صاحب نے سر راہ پھوڑ دیا اور ایک طرح سے ان کا منافقانہ چہرہ اہل سیاست اور اہل زبان کے علاوہ ووٹروں کے سامنے بے نقاب کردیا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود زرداری صاحب کی جانب سے کسی طرح کا کوئی ردعمل نہیں ایا ہے یعنی دوسرے معنوں میں انہوں نے مولانا صاحب کو ابھی تک گھاس نہیں ڈالی ہے۔ دوسری جانب عمران خان کی یہ پہلی حکومت ہے جس میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے دوران خود حکمران پارٹی ایک کے بعد ایک نشست سے محروم ہو رہی ہے ورنہ یہ ایک روایت رہی ہے کہ حکمراں پارٹی کسی بھی صورت میں ضمنی الیکشن نہیں ہارتی بلکہ کچھ نہ کرنے کے باوجود وہ بھاری اکثریت سے جتتی ہی ہے اس لئے کہ ساری حکومتی مشنری ان کے اشارے کی محتاج ہوتی ہے جس کی وجہ سے کامیابی ان کا مقدر بن جاتی ہے مگر عمران خان کی حکومت میں ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے جس سے صاف طور پر یہ ہی معلوم ہو رہا ہے کہ حکومتی مشنری یعنی بیوروکریسی اور حکمراں پارٹی ایک ہی پیچ پر نہیں ہیں دونوں کی ڈائریکشن الگ الگ ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت جہاں ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی ہار ہے وہیں حکومتی احکامات پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہ ہونا ہے اور جس طرح کا واقعہ سیالکوٹ کے علاقے میں پنجاب کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور نوجوان لیڈی اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے درمیان پیش آیا اس سے تو بیوروکریسی اور حکمراں پارٹی میں خلیج کم ہونے کے بجائے بڑھے گی۔
عمران خان کی پارٹی کو اس طرح کے تنازعات سے بچنے کی ضرورت ہے، لگتا ہے انہیں دانستہ طور پر خود ان کے اپنے اس طرح کے تنازعات میں دھکیلنے کی کوشش کررہے ہیں جو ان کی گڈ گورننس کے لئے کسی بھی طرح سے زہر قاتل سے کم نہیں۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ ذاتی طور پر بیوروکریسی کی بہتری کے لئے توجہ دیں اور خود اپنی صفوں میں موجود غداروں کو تلاش کریں جو اس طرح کے نان ایشوز کو ایشوز بنا کر تحریک انصاف کی حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کررہی ہے۔ بھیس بدل کر اور بلا کسی پروٹوکول کے دورے پر نکلنے سے بہتر ہے کھلی آنکھوں سے صورتحال کا جائزہ لیں اور دوست و دشمنوں میں تمیز کریں۔ دشمن نما دوستوں سے خود کو دور رکھیں خاص طور سے اپنے پرنسپل سیکریٹری کی ضرور کان کھینچیں جن کے ہوتے ہوئے بیوروکریسی نے ایک طرح سے عمران خان کی حکومت محاذ قائم کرلیا ہے۔ اگر اس سلسلہ کو نہ روکا گیا تو عمران خان کی حکومت کا چلنا نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن ہو جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں