عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 85

غدار بمقابلہ پاکستان؟

واقعی پاکستان میں اپنے نوعیت کے عجیب و غریب الیکشن ہونے جارہے ہیں۔ اس طرح سے یہ ہفتہ ملک میں ڈرامائی یا پھر فارمولہ تبدیلی حکومت کا ہفتہ بننے جارہا ہے اس طرح سے اس جھرلو الیکشن اور اس کے من پسند نتائج کو اپنے ارمانوں اور خواہشات کا ذریعہ بنایا جارہا ہے۔ الیکشن سے پہلے جس طرح کی توڑ پھوڑ کی گئی جس طرح سے مقدمات اور عدالتی فیصلوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ملک کے سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگایا گیا اس سے پوری قوم کے سامنے بالخصوص اور باقی ماندہ دنیا کے سامنے بالعموم یہ بات روز روشن کی طرح سے عیاں ہو کر رہ گئی کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کون سی ہے اور ملکی عوام نے کس کے ساتھ ہیں؟ کون گملے کے پودے ہیں اور کن کی جڑیں عوام کے اندر ہیں۔۔۔ اس توڑ پھوڑ نے یہ بھی ثابت کردیا الیکشن والے روز ملکی عوام کا ردعمل کیا ہوگا، ایک طرف گملے کے پودوں کو سرسبز رکھنے کے لئے لوگوں کو زبردستی گھروں سے نکال کر پولنگ اسٹیشنوں پر لانے کے لئے سرکاری مشینری کا استعمال کیا جائے گا اور دوسری جانب سرکاری وسائل کا استعمال کرتے ہوئے مخالفین کو پولنگ اسٹیشنوں پر جانے سے روکا جائے گا۔ ان کے لئے ایک طرح سے غیر اعلانیہ کرفیو لگا دیا جائے گا۔
یہ وہ تلخ حقیقت اور سچائی ہے جس سے پورا پاکستان اور باقی دنیا والے سبھی اچھی طرح سے آگاہ ہیں۔ پاکستانی میڈیا بھی بدقسمتی سے سب جانتا ہے۔ بعض کے خوف کے مارے اور بعض اپنی عادتوں کی وجہ سے یہ سچائی اپنے عوام کو نہیں بتلا رہے ہیں بلکہ انہیں ایک طرح سے گمراہ کررہے ہیں۔ غلط تجزیے اور تبصرے کرکے گھوڑے اور گدھے کا فرق مٹانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ مقدمات اور عدالتی فیصلوں کا موازنہ سابقہ الیکشن سے کرواتے ہیں۔ آج کے ہونے والے اس تاریخ ساز ظلم و نا انصافی کو 2018ءکے الیکشن میں کی جانے والی مجرمانہ سرگرمیوں سے جسٹی فائی کرنے کی کوشش کررہے ہیں یعنی پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے، اگر اب ہو رہا ہے تو کیا ہوا۔۔۔؟ یعنی فلاں پہلے لٹ چکا ہے، تم اب اگر لٹ رہے ہو تو کیا ہوا؟ اس قسم کے بھونڈے اور غلط سلط دلائل دے کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو کہ درست نہیں بلکہ غلط ہے، قانون، انصاف اور جمہوریت میں اس طرح کے کسی بھی طرز عمل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ الیکشن کے نام پر ایک مذاق ہورہا ہے اور اس طرح کے مذاق کرنے والوں کو بجائے لعن طعن کرنے کے ان کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرکے ایک طرح سے انہیں تھپکی دی جارہی ہے کہ لگے رہنو منا بھائی، یہ ہے ری پبلک بنانا پاکستان کی تازہ ترین صورتحال۔۔۔
اس تباہی اور بربادی کے جو ذمہ دار ہیں انہیں نہ کوئی روکنے والا ہے اور نہ ہی کوئی ٹھوکنے والا؟ جس کسی ایک دلیر اور باضمیر حب الوطن پاکستانی عمران خان نے ان قوتوں کو ان کی اس طرح کی من مانی کرنے سے روکنے کی کوشش کی تو پورے ملک نے دیکھ لیا کہ ان کے ساتھ سرکاری مشینری کے ذریعے ان قوتوں نے کس طرح کا انتقام لیا، کتنے مقدمات درج کروائے اور کس برق رفتاری سے انہیں سزائیں دلوا کر اپنے وقت فرعون ہونے کا انہیں یقین دلا دیا کہ اب بھی وقت ہے اور ہم سے توبہ تائب ہو جاﺅ، اپنی غلطی تسلیم کرلو، سارے مقدمات ختم ہو جائیں گے۔ تین سال تک خاموش رہیں پھر تمہاری باری تمہیں دے دی جائے گی۔ اس طرح کے پیغامات مختلف ذرائع سے عمران خان تک پہنچائے جارہے ہیں۔
یہ ہی سب کچھ اس بدنصیب پاکستان میں پچھلے 76 برسوں سے کیا جارہا ہے اس مک کو راجواڑے کی طرح سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں کے قائدے قانون اور جمہوریت کو گھر کی لونڈی بنا کر استعمال کیا گیا، یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستانی پولیس کے مقدمات اور ان کے عدالتی فیصلوں کی دنیا بھر میں نہ تو کوئی قانونی حیثیت ہے اور نہ ہی اخلاقی، دنیا کی مہذب معاشرے اور وہاں کی جمہورتیں پاکستان کو قرون وسطیٰ کے کسی جہالت میں ڈوبے ملک سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے، یہاں کے رہنے والے خود اپنوں کی وجہ سے دنیا بھر میں قابل رحم اور تماشہ بن چکے ہیں۔ 8 فروری کو ہونے والے اس تاریخ ساز الیکشن کے ذریعے ملکی عوام خود کو بدنصیب پاکستان کو غلامی کے اندھیروں سے نکال سکتے ہیں اگر وہ خوف کے بت کو ایک بار 8 فروری کو اپنے اتحاد، یکجہتی اور جوش و جذبے سے توڑنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یقین جانیے کہ دنیا کی کوئی طاقت بھی انہیں غلام بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ صرف 8 فروری کو ہی اپنی ہمت، جرات اور حب الوطنی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے، اپنے لئے نہیں تو پاکستان کے لئے۔۔۔؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں