عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 412

مسلمانوں جاگو ۔ جاگو اور جاگو

ایک طرف کرونا وائرس کے ذریعہ اجتماعی عبادتوں پر پابندی لگاتے ہوئے دنیا بھر کے عبادت خانوں کو ویران کر دیا گیا تو دوسری جانب اسلامی سزاﺅں میں شاہی فرمان کے ذریعے ردوبدل کرنے کا آغاز بھی کردیا گیا ہے۔ روس اور سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی تلخی اور اس کے نتیجے میں پیٹرول کا پانی کے بھاﺅ پر آنا یہ سب کچھ کیا خودبخود یا پھر اتفاق سے ہو رہا ہے؟؟؟ یا پھر باضابطہ ایک سازش اور منصوبہ بندی کے تحت ہر کام کیا جارہا ہے جس کی کڑیاں کہیں نہ کہیں جا کر اس تاریخی معاہدہ لوازنا سے جا کر ملتی ہیں۔ جو ایک سو سال قبل یعنی 24 جولائی 1923ءکو پہلی جنگ عظیم کے فاتحین اور قبضہ کردہ ترکی حکومت کے کٹھ پتلی سربراہ اتاترک کے درمیان ہوا تھا اور ب 2023ءقریب ہونے کو ہے جس کے بعد عالم اسلام کو جو ایک جابرانہ معاہدہ کے ذریعے قید کیا گیا تھا وہ آزاد ہونے جارہا ہے اور ترکی جو سلطنت عثمانیہ کی باقیات ہے وہ سب کچھ کرنے میں قانونی اور اخلاقی طور پر خودمختار ہو گا جسے اسلام دشمنوں نے ایک غاصبانہ معاہدہ کے ذریعے ان پر پابندیاں عائد کرکے روک رکھا تھا۔ یہ وہ سب عوامل ہیں جس کے گرد اس وقت دنیا کی سیاست بالخصوص اور رونما ہونے والے سارے حالات اور واقعات بالعموم گھوم رہے ہیں اگر اسی تناظر میں کرونا وائرس سمیت دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال کو دکھا جائے تو ساری حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی کہ جو کام صلیبی جنگوں کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکے وہ کام کرونا وائرس نے چٹکی بجا کر حل کرا دیئے۔ یعنی دنیا بھر کے عبادت خانے موت کے خوف سے ویران کروا دیئے گئے اور جب ایمان کی قوت سے مالا مال لوگوں نے عبادت خانوں کو آباد رکھنے کی کوشش کی تو انہیں قانون کے ذریعے ڈرایا دھمکایا گیا۔ معاملہ یہیں تک محدود نہ رہا بلکہ کرونا وائرس کے اس غوغا کے دوران ہی خاموشی کے ساتھ سعودی عرب کے شاہ نے ایک شاہی فرمان کے ذریعے ملک بھرمیں کوڑوں کی ان سزاﺅں کو ختم کر دیا جب کہ اسلامی شریعیت میں شراب اور زنا کے مقدمات میں خاص طور سے اس سزا کا حکم تھا۔ جس کا تذکرہ قرآن کریم کی مختلف سورتوں کی آیات میں موجود ہے اس طرح سے شاہی فرمان کے ذریعے قرآنی فرمان میں ترمیم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور جس طرح کے حالات اور واقعات سامنے آرہے ہیں اس سے تو یہ ہی تاثر ملتا ہے کہ جس شاہی فرمان نے کسی بھی دباﺅ کی وجہ سے ایک بار قرآنی سزاﺅں میں ردوبدل کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے وہ گردن زنی کی سزا کو عمر قید میں بدلنے پر جا کر ہی ختم ہو گا۔ مغربی قوتوں نے جس طرح سے روس کے ذریعے سعودی عرب کی سب سے بڑی معیشت تیل پر شب خون مارا ہے کے جس کی وجہ سے تیل کی قیمت عالمی منڈی میں پانی کے بھاﺅ کے برابر آگئی ہے اس کے نتیجے میں یہ ہی سب کچھ ہونا تھا جو سعودی شاہی فرمان کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ یہ عالم اسلام کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
سعودی شہنشاہ کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ قرآنی سزاﺅں میں تبدیلی کرسکے؟؟ یہ ساری تبدیلیاں کفار کروا رہے ہیں انہیں بھی ڈر لگا ہوا ہے کہ 2023ءمیں لوازنا معاہدے سے جب ترکی دست بردار ہو جائے گا تو پھر دنیا کی سیاست بدل جائے گی، بکھرے ہوئے مسلمانوں کو دوبارہ سے ایک قیادت سلطنت عثمانیہ کی باقیات کی صورت میں مل جائے گی جس کے بعد ترکی نہ صرف اپنی ریاست میں پیٹرول نکالے گا بلکہ اپنے سمندروں سے گزرنے والے بحری جہازوں سے چنگی بھی وصول کرے گا یہ وہ ساری پریشانیاں ہیں جو کفار کو کھائے جارہی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ بیک وقت ترکی اور دوسرے اسلامی ممالک میں مداخلت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شام میں خون خرابہ اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں جب کہ اسی دباﺅ میں وہ مسلمانوں کے مرکز سعودی عرب میں اپنی بے جا مداخلت بڑھاتے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں سعودی شاہ کو قران کریم سے متصادم شاہی فرمان جاری کرنا پڑا جس پر بحیثیت مسلمان مجھے بہت زیادہ حیرت ہو رہی ہے۔ یہ وہ کام تھا جس کو کرنے کے لئے کفار ایک عرصہ سے بے چین اور بے تاب تھے اور جیسے ہی انہیں یہ موقع ملا انہوں نے کام نکال کروا دیا۔ سعودی عرب میں جدت اور اس دوران ایک سعودی صحافی کا ترکی میں واقع سعودی سفارتخانے میں قتل کی واردات بھی اسی سلسلے کی کڑی بتائی جاتی ہے۔
ایک جوالا مکھی ابھی باقی ہے جو 2023ءکے جولائی سے پہلے کبھی بھی کسی بھی جگہ پھٹ سکتا ہے اس لئے کہ یہود اور کفار کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ 24 جولائی 1923ءکے جس لوازنا معاہدے سے عالم اسلام کو جکڑا تھا اسے ختم کردیا جائے اور مسلمانوں کی سب سے بڑی سلطنت عثمانیہ کو دوبارہ سے یورپ کے بیمار گھوڑے ترکی میں جان ڈال کر منظرعام پر لائی جائے وہ اس تاریخی معاہدے کو دو عالمی جنگوں کا نتیجہ، نچوڑ یا پھر انعام خیال کرتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ آسانی کے ساتھ مسلمانوں کو ان کی کھوئی ہوئی میراث لوٹانے کو تیار نہیں ہوں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلمانوں کی اساس کو کمزور کرنے کی بھی پوری کوشش کررے ہیں جس کی ابتداءانہوں نے کرونا وائرس کے ذریعے دنیا بھر کی مسجدوں کو خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کو ویران کرنے اور قرآنی سزاﺅں میں ترمیم کی صورت میں کردی ہے۔ اس طرح سے کفار اور یہودیوں نے اپنا آخری کھیل شروع کردیا ہے جب کہ دنیا کے تمام مسلمان ممالک میں بے یقینی اور بے چینی کی کیفیت پیدا کی جارہی ہے۔ پاکستان میں میڈیا کے ذریعے پاکستان کی خودمختاری کے ساتھ مذہبی معاملات پر حملے کروائے جارہے ہیں۔ گزشتہ دنوں معروف عالم دین طارق جمیل کے ساتھ میڈیا کا ناروا سلوک اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ پاکستانی میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں ہونے والی ان بڑی تبدیلیوں سے ملکی عوام کو لاعلم رکھا جارہا ہے۔ ملکی عوام کو میڈیا کے توسط سے نان ایشوز میں الجھایا جارہا ہے تاکہ عالم اسلام کے خلاف کی جانے والی سازشوں سے پاکستانی عوام غافل رہیں جب کہ ایک سازش کے تحت ملکی میڈیا کو حکومت کے خلاف ملکی عوام میں بے چینی پھیلانے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ عالم اسلام کو چاہئے کہ وہ دشمنوں کی چالوں پر گہری نظر رکھے اور خود اپنوں میں موجود میر جعفروں اور میر صادقوں سے خود کو بچانے کی کوشش کریں۔ اس نازک ترین صورتحال میں باہمی یکجہتی اور اخوت کا مظاہرہ کریں اور ہر اس قانون اور اس عمل کو روکنے اور اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش کریں جو انہیں ان کے مذہب ان کے شریعت اور ان کے خداوند سے دور کرنے کا باعث ہو۔
سلطنت عثمانیہ کے دوبارہ قیام اور معاہدہ لوازنا سے دست برداری کی شکل میں اسلامی سلطنت کے دوبارہ سرخرو ہونے کے لئے تمام عالم اسلامکو مل کر کوشش کرنی چاہئے اور اپنی صفوں میں موجود غداروں سے خود کو بچانے کی بھی کوشش کریں جو مسلمانوں کے بھیں میں یہودیوں کے ایجنٹ بن کر کام کررہے ہیں۔ 2023ءکا سال سلطنت عثمانیہ کا سال ہے جسے روکنے کی کفار کی تمام کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے مسلمانوں کو اللہ اکبر کہنا پڑے گا، کندھے سے کندھا ملانا پڑے گا۔ یہ ہی اسلام کی پہچان اور شناخت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں