عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 329

مسلم لیگ ن کا مستقبل۔۔۔؟

ایسے لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کا بھی متحدہ قومی موومنٹ کی طرح سے شیرازہ بکھرنے کا وقت آگیا ہے یعنی مسلم لیگ ن کو بھی دو یا دو سے زائد حصوں میں تقسیم کیا جارہا ہے جن میں سے ایک حصہ مسلم لیگ ن لندن اور دوسرے کو مسلم لیگ ن لاہور ک نام سے پکارا جائے گا۔ لندن والے کی قیادت میاں نواز شریف کریں گے البتہ لاہور والی مسلم لیگ ن کی قیادت کا معاملہ ضرور پارٹی میں کم اور خاندان میں زیادہ گڑبڑ کا باعث بنے گا اس لئے کہ سارا معاملہ اور جھگڑا ہی پارٹی قیادت کا ہے اور پارٹی میں تقسیم بھی اس کی ایک بڑی وجہ بتلائی جاتی ہے ان دنوں مسلم لیگ ن کے اندر بڑے لیڈروں اور چھوٹے پارٹی ورکرز میں یہ معاملات زیربحث ہیں ہر کوئی دوسرے کے سامنے اسی موضوع پر سوال بنے کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ ملک کے سیاسی ارسطوں اور بقراط کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن میں ایک جوالا مکھی تو کافی عرصے سے پک رہی تھی لیکن وہ اتنی جلد ہی پھٹنے جائے گی۔ اس کا اندازہ کسی کو بھی نہیں تھا لیکن اس کا ذمہ دار بھی میاں نواز شریف کو ہی ٹھہرایا جارہا ہے کہ نہ وہ پاکستان اور اس کے حساس اداروں کے خلاف اس طرح کی زبان استعمال کرتے اور نہ ہی کسی کو ایم کیو ایم کی طرح سے مسلم لیگ ن کی ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی نوبت پیش آتی اس میں کس حد تک صداقت ہے یہ تو میاں برادران جانتے ہیں یا وہ لوگ جو یہ سب کچھ کررہے ہیں۔ بحرحال جیسی روح ویسے فرشتے والی کہاوت ہی اس صورتحال پر درست صادق آرہی ہے۔ اب اس طرح کی صورتحال میں پریشان فکر یا پھر مصیبت ورکرز اور چھوٹے رہنماﺅں پر آگئی ہے کہ وہ اس نازک ترین صورتحال میں کیا کریں؟
ایک طرح سے ان کی وفاداری کا بھی یہ ایک امتحان ہے کہ وہ قائد اعظم کے اس پاکستان سے وفاداری نبھائیں یا پھر ملک دشمن بیانیہ کو لے کر چلنے والے میاں نواز شریف سے وفاداری نبھائیں۔ یہ ایک اہم موڑ اس پارٹی کے ورکروں پر آگیا ہے کہ وہ کیا کریں۔۔۔؟ ایسے میں بارش کا پہلا قطرہ خود پنجاب سے مسلم لیگ ن کا ایم پی اے جلیل شرقپوری ثابت ہوا جنہوں نے میاں نواز شریف کے اداروں کے خلاف بیان سے لاتعلقی کا اظہار کردیا اور اس کے بعد خانیوال کے ایم پی اے افضل خان نے بھی پارٹی قائد میاں نواز شریف کے اداروں کے خلاف تقریر پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اس طرح سے پارٹی میں بغاوت کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ چل پڑا ہے جس سے پارٹی کے قائدین میں ایک خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور اس سلسلے میں ہنگامی اجلاس کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے ادھر متحدہ اپوزیشن نے گیارہ اکتوبر سے عمران خان کے حکومت کے خلاف ملک گیر سطح پر تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے۔ حکومت کے خلاف تحریک چلانے میں اس وقت سب سے زیادہ جلدی مولانا فضل الرحمان گروپ کو ہے جنہیں اقتدار سے محرومی کے بعد دوسرا بڑا جھٹکا نیب کی جانب سے بھجوائے جانے والے نوٹس کا ہے جسے وہ مولانا فضل الرحمان کی شان میں بہت بڑی گستاخی قرار دے رہے ہیں اور وہ دراصل یہ تحریک عمران خان سے زیادہ نیب کے ادارے کو سبوتاژ اور تباہ و برباد کرنے کے لئے چلا رہے ہیں، دوسرے معنوں میں وہ حکومت اور اس کے پس پردہ کام کرنے والی قوتوں کو بلیک میل کررہے ہیں تاکہ وہ خاموشی کے ساتھ انہیں این آر او دے دیں بحرحال سب مل کر ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ سب کا دکھ درد اور سب کی بیماری ایک ہی ہے اور اس طرح سے سب کی دوا یا شفاءبھی علاج یعنی این آر او میں ہی منحصر ہے اور اس کا حصول کا طریقہ سوائے سول نافرمانی اور اس طرح کے تحریک چلانے کے سوا اور کچھ بھی نہیں غرض سارے کام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور کرنے والے ایک کے بعد ایک کرتے جارہے ہیں اب پہلا کام مولانا کی گرفتاری سے بھیز یادہ ضروری لوگوں کے حب الوطنی کو داﺅ پر لگانے سے روکنا ہے جس کے لئے مسلم لیگ ن میں چھانٹی کا عمل ضروری ہے اور اس کا بہترین طریقہ اس کے ٹکڑے بخرے کرنے کے سوا اور کچھ نہیں اس طرح سے ہر کسی کی پوزیشن واضح ہو جائے گی کہ وہ لکیر کے کس جانب ہے۔۔۔؟ یہ ایک بہت بڑا امتحان ہے جس سے مسلم لیگ ن کے ورکرز کو اور دوسرے پارٹی رہنماﺅں کو گزرتا ہے اور یہ ایک بہت ہی اہم اور حساس معاملہ ہے جس سے گزرنے والے تمام افراد کو سوچ سمجھ کر اور ٹھنڈے دل و دماغ سے فیصلہ کرنا چاہئے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہیں یا پھر پاکستان دشمن بیانیہ چلانے والے ملک دشمنوں کے ساتھ ہیں بحرحال یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ میاں محمد نواز شریف اس زہریلی تقریر کے ذریعے ایک اس طرح کی بند گلی میں داخل ہو گئے ہیں جہاں سے نکلنے کا اب کوئی ایک ہی راستہ نہیں۔ ان کے اپنے بیانات ان کی تباہی و بربادی کا سبب بن رہے ہیں ان کے اس طرح کے زہریلے بیانات سے خود اپنے خونی رشتوں میں پھوٹ پڑ چکی ہے اور ہر کوئی شہباز شریف کی گرفتاری کا سب سے بڑا بینیفشری مریم نواز کو سمجھ رہے ہیں سب کا یہ کہنا ہے کہ شہباز شریف کے اس موقع پر جیل جانے سے مریم نواز کی قیادت کی راہ سے ساری رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں اور وہ اب صرف ایک ہی ملک دشمن بیانیہ کو لے کر آگے بڑھیں گیں جس کا فہم و ادراک خود شہباز شریف کو بھی ہے کہ اس کے ساتھ ہاتھ حکومت نے نہیں بلکہ خود انہوں نے کروایا ہے اور ضمانت میں توسیع نہ کئے جانے کا مشورہ حکومتی ایوانوں سے نہیں بلکہ کہیں اور سے آیا تھا اس طرح سے خود حکومت نے اب میاں نواز شریف کو وطن واپس لانے کا ٹاسک ایف آئی اے کو دے دیا ہے، کو وہ فوری طور پر نواز شریف کو وطن واپس لانے کے لئے تمام تر قانونی اقدامات بروئے کار لائیں۔ حکومت ہر حال میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لئے ہی تمام تر اقدامات کئے جارہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں