بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 413

مولانا طارق جمیل اور میڈیا

مولانا طارق جمیل نے اپنے خلاف ہونے والے میڈیا ٹرائل میں فوری معافی کا خوستگار ہو کر سینئر میڈیا کے اینکرز کو ایسا دھوبی پٹکا لگایا کہ جس کی توقع نہ تو عبدالمالک کو تھی اور نہ ہی حامد میر کو۔ ان کے آن ایئر معافی مانگنے کے بعد حامد میر نے اپنی سی کوشش تو کی کہ انہیں دوبارہ گھسیٹ لیا جائے مگر مولانا اپنا وار کر چکے تھے اور ان کا تیر نشانے پر لگ چکا تھا۔
پچھتاوے کیا ہوت
جب چڑیاں جگ گئی کھیت
دراصل یہاں اگر سچائی سے تجزیہ کیا جائے تو میڈیا کے نمائندوں نے جس غلطی کا خمیازہ بھگتا یا بھگت رہے ہیں اس غلطی کی وجہ بھی مولانا طارق جمیل خود بنے۔ یہ کہنا کہ انہیں عمران خان کی سپورٹ کرنے کی سزا دی گئی ہے یا یہ کہا جارہا ہے کہ مولانا نے تو تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ اچھے مراسم رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلامی تاریخ میں علماءدین کبھی کسی حکمران کو سپورٹ کرتے تھے؟ کیا اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھری نہیں پڑی کہ علماءاور فقراءنے کبھی بادشاہوں کے دربار میں حاضری نہیں دی بلکہ بادشاہ وقت خود ان علماءکی خانقاہوں میں یا فقراءکی کٹیا میں حاضری دیا کرتے تھے اور دعا کی درخواست کرتے تھے۔ مگر اب زمانہ بدل گیا ہے۔ مولانا بھی ایڈوانس ہو گئے ہیں۔ آج مولانا طارق جمیل کے معاملہ میں میڈیا اور عوام دو گروپوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور طوفان بدتمیزی کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مولانا طارق جمیل اس وقت کہاں تھے کہ جب دھرنے میں ڈھول کی تھاپ پر خواتین محو رقص تھیں۔ غرض جہاں میڈیا کے سینئر اینکرز عوام کی بندوق کی نوک پر ہیں وہیں مولانا طارق جمیل بھی شدید تنقید کی زد میں ہیں۔
ہمارے ملک میں تو علماءدین ہوں، میڈیا ہو یا عدلیہ، سب کے سب طاقت ور حکمرانوں کے درکے غلام ہیں اور تمام معاملات اور فیصلے حاکم وقت کا موڈ دیکھ کر کئے جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں ملاﺅں، فوجی جنرل، بیورو کریسی اور سیاستدانوں کے درمیان سازباز ہے اور یہی وجہ ہے کہ فیصلے بھی انہی کے مفادات کو سامنے رکھ کر کئے جاتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ عوام وائرس کی وباءکے خوف سے گھروں میں مقید ہیں، روز کمانے کھانے والے دو وقت کی روٹی کے محتاج ہو چکے ہیں اور ابھی نہیں معلوم کہ یہ وائرس اور کیا گن کھلاتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ کورونا وائرس تو ایک ٹریلر ہے اصل فلم تو چند ماہ بعد شروع ہو گی۔ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ بچوں کے اسکول ہوں یا دفاتر یا پھر ایئر لائن ٹکٹ یا ہسپتال میں علاج غرض ہر سطح پر آپ کو بلا ویکسین کے جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ یوں اس لاک ڈاﺅن کے بعد کا منظر موجودہ منظر سے زیادہ خوفناک دکھائی دے رہا ہے۔ ایک ایسے مرحلہ پر جب کہ حکومت اور عوام مشکلات کا شکار ہیں ہم لاک ڈاﺅن کے اثرات کی حکمت عملی طے کرتے، ہم نے ایک نئی جنگ چھیڑ کر عوام کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔
سندھ حکومت مطلق العنان گھوڑے کی طرح کراچی کے عوام پر زندگی تنگ کرتی چلی جارہی ہے۔ نئی کہانی 18 ویں ترمیم کے خاتمہ کی سامنے آچکی ہے جس کے لئے کوئی سیاسی پارٹی تیار نہیں مگر شاید 18 ویں ترمیم ضروری ہے کہ صوبہ میں صوبائیت کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ ہو رہے ہیں اور کہیں پاکستانی نظر نہیں آتے۔ ہاں پورے پاکستان میں قومیتیں پوری شان و شوکت کے ساتھ موجود ہیں۔ پاکستان تو ابھی قائم ہے مگر پاکستان کو قائم رکھنے کی قوت نے عوام کو لہولہان کر دیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ لاک ڈاﺅن کے بعد کا پاکستان کیسا ہو گا اور موجودہ حکومت جس کے لئے مولانا رو رو دعائیں کررہے ہیں ان کی دعاﺅں سے بچ جائے گی یا پھر قدرت نے کچھ اور سوچ لیا ہے؟
واضح رہے کہ حکومتیں دعاﺅں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے ہی پنپتی ہیں وگرنہ عمران خان رہیں نہ رہیں پاکستان ان شاءاللہ ضرور قائم و دائم رہے گا کہ یہ ہمارے نبی محتشم کا مسلمانوں کے لئے تحفہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں