امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے کارنامے 358

مولانا کے دعوے یا دیوانے کے خواب

مولانا اپنے ڈھائی سالہ جہد کے باوجود عمران خان کی حکومت کو ٹس سے مس تک نہ کر سکے یہ ہی ملکی میڈیا کے اس مخصوص گروپ کا ہے جو ریمورٹ کنٹرول کے تحت استعمال کیا جاتا ہے جسے وظیفہ خور میڈیا بھی کہا جاتا ہے، مولانا اور ان دونوں کو ایک طرح سے ہلکان ہو گیا ہے مگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے، کہنے والے کہتے ہیں مولانا اپنی پوری سیاسی زندگی میں پہلے اتنے نہ تو کبھی مصروف رہے اور نہ ہی کبھی پریشان، جس طرح کی صورت حال کا انہیں اس وقت سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی نظیر پہلے کبھی نہیں ملتی جتنا غصہ انہیں اس وقت آرہا ہے اتنے غصے میں انہیں ان کے رفقاءنے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ خود ان کے اپنی سمجھ سے بھی یہ بات باہر ہے کہ عمران خان کی حکومت ان کے سہارے یا شمولیت کے بغیر کس طرح سے چل رہی ہے یہ ان کے لئے کسی بھی طرح سے معجزے سے کم نہیں۔ اس لئے کہ ان کی نظر میں عمران خان کی حکومت پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کے مقابلے میں بہت ہی کمزور ترین حکومت ہے اور انہیں سو فی صد یہ امید تھی کہ عمران خان کی حکومت ان کی شمولیت کے بغیر نہ تو قائم ہو سکتی اور نہ ہی چل سکتی ہے مگر اس کے برعکس ان کی حکومت نہ صرف قائم ہو گئی ہے بلکہ دوڑ بھی رہی ہے۔
1977ءکے نو ستاروں کی تحریک جو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو گرانے کے لئے غیر ملکی فنڈنگ کے ذریعے چلائی گئی تھی بالکل اسی طرز پر اپوزیشن کی موجودہ تحریک پی ڈی ایم بھی شروع کروائی گئی مگر افسوس کے اس تحریک میں اس طرح کی شدت اور جان پیدا نہ کی جا سکی جس طرح کی نو ستاروں کی تحریک میں پیدا کر دی گئی تھی۔ پی ڈی ایم والوں کو بھی اس بات کا اچھی طرح سے علم ہو گیا کہ ان کے جلسہ جلوسوں اور تقریروں کے باوجود لوگوں میں اس طرح کا جوش و جذبہ اور ولولہ وہ پیدا نہ کر سکے جو اس طرح کے تحریکوں کی کامیابی کے لئے ضروری ہوتا ہے یہ ہی حال میڈیا کے اس مخصوص ٹولے کا ہے جنہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ ان کی خبریں تبصرے اور تجزیے بھی لوگوں کو حکومت وقت کے خلاف سڑکوں پر لانے اور احتجاج کرنے پر قائل نہ کرسکے۔ حالانکہ مولانا اور میڈیا کے اس مخصوص ٹولے نے انتہائی محنت سے کام کیا لیکن ایسے لگ رہا ہے کہ یا تو ان کی اپنی قسمت خراب ہے یا پھر عمران خان پر قسمت کی دیوی مہربان ہے کہ مخالفین کا کوئی ایک بھی داﺅ کامیاب نہیں ہو رہا ہے ان کا کوئی ایک بھی تیر نشانے پر نہیں لگ رہا ہے اس وقت عمران خان خود بہت زیادہ مطمئن اور ان کے مخالفین بشمول مولانا سب کے سب پریشان دکھائی دے رہے ہیں اب مولانا کا یہ کہنا ہے کہ 26 مارچ کو ہونے والے لانگ مارچ کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم ہو جائے گی اس طرح سے مارچ کا مہینہ ملکی سیاست میں اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے اس سال کا 23 مارچ بھی بہت ہی اہم ہو گا اس لئے کہ مارچ میں ہی سینیٹ کے الیکشن ہونے جارہے ہیں جو ملکی سیاست کا دھارا موڑنے کا باعث بنے گا۔ سینیٹ کے اس الیکشن میں عمرانخان کی کامیابی مخالفین کی موت کا سبب بنے گا اس لئے مخالفین کی پوری کوشش ہو گی عمران خان اور ان کی پارٹی اور ان کے اتحادی کسی بھی صورت میں کامیاب نہ ہونے پائیں اس لئے کہ اپوزیشن کو اچھی طرح سے اس بات کا علم ہے کہ اگر عمران خان اور ان کے اتحادی سینیٹ کے الیکشن میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر ان پر قانون سازی کے ذریعے حملے کرکے گھیرنے اور تباہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس طرح سے اپوزیشن پارٹیاں اپنی بقاءکی جنگ لڑ رہی ہیں اس لئے ان کی پوری کوشش ہے کہ وہ سینیٹ کے الیکشن میں وہ عمران خان اور ان کے اتحادیوں کو ہر حال میں شکست سے دوچار کریں۔ ورنہ قانون سازی کے ذریعے عمران خان انہیں نہ صرف تباہ کرنے سے دریغ نہیں کریں گے بلکہ سیاست کے ذریعے کمائی جانے والی ان کی ساری حرام کی کمائی اور دوسرے ناجائز اثاثے وہ سارے کے سارے ضبط کرکے اس ملکی خزانے کو دوبارہ سے بھر لیں گے جو انہوں نے اپنی مکارانہ سیاست کے ذریعے خالی کروا کر ملک کو قرضوں میں دھکیل دیا تھا اسی وجہ سے اب ان سیاستدانوں اور ان کے اتحادی پارٹی پی ڈی ایم کو ایک طرح سے ملک دشمن قوتیں بھی کسی اور کسی طرح سے سپورٹ کررہی ہیں کہ ان کی تحریک کامیاب ہو جائے اور عمران خان کی حکومت اس تحریک کے نتیجے میں زمین بوس ہو جائے اور ملک دوبارہ سے ترقی اور خودمختاری کی شاہراہ سے اتر کر پرانی ڈگر پر آجائے۔
عمران خان کو چاہئے کہ وہ اس وقت اپنی ساری توجہ سینیٹ کے الیکشن پر صرف کریں کہ وہ کسی بھی صورت میں اس موقع کو ہاتھ سے ضائع نہ ہونے دیں، سینیٹ کا الیکشن جیت کر اپنی حکومت کو ایک جمع ایک گیارہ کرتے ہوئے اور مزید مستحکم کرکے ملک سے جرائم اور کرپشن سے لپٹی ہوئی سیاست کا خاتمہ کریں یہ ہی بدلتے ہوئے پاکستان کا تقاضا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں