پاکستان جو پہلے ہی معاشی مشکلات سے دوچار ہے اور جہاں حکومت اور اپوزیشن آپس میں دست و گریباں ہیں۔ حکومت اپنے قیام سے لے کر آج تک جنگی حالت میں ہے اور معیشت کی بحالی اور عوام کی بہبود کے پروجیکٹس شروع کرنے کی بجائے انتقامی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جنہیں چور اور لٹیرے کہا جاتا رہا اور جن کے احتساب کی باتیں ہوتی رہیں وہ یا تو ملک سے سدھار گئے یا پھر کیس کمزور ہونے کے سبب رہا ہو گئے۔ حکومت کی جانب سے اُن پر لگائے گئے الزامات ثابت ہی نہ ہو سکے۔ اب آپ اس کا سبب عدالتی نظام کو ٹھہرائیں، بیوروکریسی کی ڈپلومیسی کہیں یا پھر اسٹیبلشمنٹ کی دوغلی پالیسی۔ غرض سب سزا سے بچ گئے اور حکومت ایک دھیلہ بھی وصول نہ کرسکی جنہوں نے کروڑوں کمائے لاکھوں خرچ کرکے با عزت ٹھہرے مگر ہمارے وزیر اعظم آج بھی احتساب کی مالا چب رہے ہیں۔ انہیں احساس ہی نہیں کہ ان کی حکومت ناکام ہو چکی ہے۔ اُن کے وزراءعوام کے اعتماد پر پورے نہیں اُتر سکے، سونے پہ سہاگہ یہ کہ غیر ذمہ داری سے کئے گئے معاہدے اور فیصلہ آج حکومت کے لئے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ جن کا نتیجہ یہ ہے کہ تحریک لبیک نے ہزاروں کارکن ملک کا امن و امان خراب کررہے ہیں مگر حکومت مجبور دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کی خفیہ قوتیں نہ جانے کیا رول ادا کررہی ہیں کہ تحریک لبیک کے جو کارکن حکومت کو گالیاں دے رہے ہیں، پولیس کو خون میں نہلا رہے ہیں، وہ پاک فوج زندہ باد کے نعرے کیوں لگا رہے ہیں۔ محسوس تو یہی ہو رہا ہے کہ ایک جانب سے اشارہ کردیا گیا کہ آپریشن کیا جائے تو دوسری جانب ہدایات دے دی گئیں کہ مضبوطی سے کھڑے ہو جائے۔ عوام کا حافظہ ایسا بھی کمزور نہیں کہ انہیں یاد نہ ہو کہ یہی لوگ تھے جنہیں فیض آباد دھرنے اور ایک ایک ہزار کے لفافے بانٹے گئے تھے۔ جب منہ کو خون لگا دیا گیا ہے تو پھر خون چوسنے والے کیونکر پیچھے رہیں گے۔ جو بویا ہے وہ تو کاٹنا پڑے گا۔ یہی مکافات عمل ہے۔
363