بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 102

نئی نسل کے لئے بے حسی کا پیغام

شیطان اپنے مقاصد میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے نبی آخر الزماں نے بہت پہلے ان خدشات اور ان واقعات سے مسلمانوں کو آگاہ کردیا تھا مگر ہم مسلمانوں نے دین کو سمجھتے ہوئے بھی نہ سمجھا۔ ایک مذہب، ایک نبی کی امت اور ایک قرآن کو ماننے والے آج خاموش تماشائی بنے غزہ میں ہونے والی درندگی کو دیکھ رہے ہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ہمارے سعودی عرب کے مسلمان اس قدر قریب ہونے کے باوجود نہ صرف اپنی آنکھیں، منہ اور کان بند کئے ہوئے ہیں بلکہ اپنی رنگینیوں میں مست ہیں۔ اپنی عیاشیوں میں غرق ہیں۔
رمضان المبارک کے اس مقدس مہینہ میں جو ہمیں جذبہ ایثار کا درس دیتا ہے جس میں خود کو بھوکا رکھنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم اپنی طرح کے دوسرے انسانوں کی بھوک کی تکلیف کا احساس کرسکیں مگر غزہ اور فلسطین کے لوگ کھلے آسمان تلے بے یارومددگار دوا اور روٹی کو ترس رہے ہیں۔ وہ بچے جن کے ماں باپ چھین لئے گئے، وہ بچیاں جن کے بھائی خون میں لت پت ہیں اور جن کی لاشیں بے گور کفن میدانوں میں پڑی ہیں۔ کس سے فریاد کریں۔ فلسطین جس کے چہار جانب مسلم ممالک ہیں۔ چپ سادھے بیٹھے ہیں اور اسرائیل اپنی من مانی کررہا ہے، روزبروز منہ زور ہوتا جارہا ہے۔ پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود اسے کوئی غرض نہیں، انسانیت کو اس وقت جس تذلیل، بربریت، خودغرضی، ہلاکت کا سامنا ہے۔ یہ سب ہم مسلمانوں کی نا اہلی اور خاموشی کا شاخسانہ ہے۔
ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم اپنے بیٹوں، بیٹیوں، پوتے پوتیوں، نواسے، نواسیوں کے لئے کیسی دنیا چھوڑ رہے ہیں۔ آج کمیونزم، اسلامزم، وجودیت، جدیدت سب امریکی مقتدرہ کے سامنے عجز کا شکار کیوں ہیں۔ انسان ہر روز پستیوں میں گرتا چلا جارہا ہے۔ دولت کی ضرورت نے سب کے منہ بند کردیئے ہیں اور انسانیت شرمندہ ہے۔ اقوام متحدہ کے دوسو سے زائد ممالک امریکہ کے سامنے بے بس ہیں۔ سلامتی کونسل نہ جانے کس کی سلامتی کے لئے بنائی گئی ہے۔ پاکستان دنیا کی واحد ایٹمی طاقت، بھکاریوں کی طرح آئی ایم ایف کے سامنے کشکول لئے کھڑی ہے۔ پاک فوج نے اپنی عزت کو تارتار کرکے رکھ دیا ہے۔ پاکستان کے مطلب لا الہ الا اللہ کا پوری دنیا میں مذاق بن چکا ہے۔ حکمرانوں میں اب نہ ماوزے تنگ رہے، نہ شاہ فیصل، ناصر جمال، معمر قذافی، بن باللہ اور نہ ہی ذوالفقار علی بھٹو، سوکارنو اور خمینی۔ امریکہ اور مغرب کی سپورٹ پر اسرائیل اس قدر خودسر ہو سکتا ہے کسی نے نہیں سوچا تھا۔
تاریخ میں اس قدر تباہ کن بھوک کا سامنا شاید کسی قوم نے نہ کیا ہو۔ دس ہزار میں سے دو بچے ہر روز غذا نہ ملنے کے سبب دم توڑ رہے ہیں مگر افسوس اس ماہ رمضان میں مسلمان صرف دعائیں کررہے ہیں۔ اللہ سے مدد کی درخواست کررہے ہیں مگر یہ نہیں سوچ رہے کہ کیا انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کرلی کہ جو اللہ تعالیٰ سے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے ہیں۔ کسی کو اس بات کا خوف نہیں کہ وہ اللہ کی جانب سے آئی آزمائش پر پورے نہیں اترے اور آنے والا وقت ان کی اولادوں کے لئے اچھا نہ ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں