نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 357

نوشتہ دیوار برائے نیب

پاکستان میں نیب کے ادارے پر ہر دور میں سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے علاوہ ہر اس شخص کی جانب سے بڑے شدومد کے ساتھ تنقید ہوتی رہی ہے جو کسی نہ کسی طرح سے اس ادارے کی زد میں آچکے تھے لیکن اس اجتماعی تنقید کے باوجود کسی ایک بھی حکومت نے یہ جاننے کی کوشش اور زحمت کبھی نہیں کی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر کوئی ہر دور میں اس ادارے کو ہی اپنی تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ حکمرانوں کو تو اس بات کی خوشی ہو رہی ہوتی ہے کہ نیب کا ادارہ ان کے مخالفین کے خلاف کام کرکے ایک طرح سے ان کا بوجھ ہلکا کررہا ہے اس طرح نیب کا گورکھ دھندہ یا پھر ان کا چورن ہر دور میں فروخت ہونے لگا۔ یہ پاکستان کا ایک ایسا واحد تفتیشی ادارہ ہے جسے ملزموں کو پکڑنے ان کے خلاف مقدمات درج کرنے اور اس کے بعد انہیں چالان کرکے عدالتوں اور بعد میں جیل بھجوانے کا بھی اختیار حاصل ہے مگر اس کے باوجود انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کا واسطہ کبھی کسی فریادی یعنی مدعی سے نہیں پڑا۔ خود ہی کسی کے خلاف بھی انکوائری شروع کر دیتے ہیں اور خود ہی اس انکوائری کو جب چاہیں روک دیتے ہیں، جب چاہے ختم کر دیتے ہیں، انہیں نہ کوئی روکنے والا اور نہ ہی کوئی ٹوکنے والا ہے۔ جھوٹے الزامات کے تحت کسی کے خلاف انکوائری شروع کرنے کی صورت میں وہ نیب کے قوانین کی زد میں کبھی نہیں آتے یعنی اگر کوئی فریادی کسی کے خلاف جھوٹی شکایت درج کرادے اور نیب کی تحقیقات میں ان کے الزامات جھوٹے ثابت ہو جائیں تو پھر نیب قوانین کے مطابق اس شخص کے خلاف مقدمہ درج کیا جاتا ہے لیکن جب نیب والے خود ہی جھوٹے اور بے بنیاد الزامات پر کوئی کارروائی شروع کرتے ہیں تو پھر ان کے خلاف نیب قوانین کے تحت کوئی کارروائی نہیں کرتا، اس لئے کہ کارروائی کرنے والے بھی وہ خود ہی ہوتے ہیں۔
میری معلومات کے مطابق نیب کی تاریخ میں پہلی بار کوئی مدعی، کوئی فریادی، سابق ڈی آئی جی پولیس سلیم اختر صدیقی نیب میں 7 مختلف ریفرنسز لے کر گئے ہیں جن میں سے تین پولیس کے اعلیٰ افسران اے ڈی خواجہ سلطان خواجہ اور عبدالمالک سے متعلق اور ایک ریلوے کے ڈائریکٹر جنرل جی ایم قریشی سے متعلق ہیں اور یہ سب کے سب ریفرنس نیب کے گلے کی ہڈی بن گئے ہیں۔ یہ ان کے لئے ایک اس طرح کا نوالہ بن گیا ہے کہ جسے وہ نہ تو نگل سکتے ہیں اور نہ ہی تھوک سکتے ہیں۔ اس وجہ سے نیب والے بہت ہی مشکل میں آگئے ہیں۔ ان سارے ریفرنس میں جو سلیم اختر صدیقی نے بجھوائے ہیں ان میں نیب کے افسران نے مبینہ طور پر حرام خوری کی ہے اسی وجہ سے وہ ان تمام افراد کو قانونی تحفظ فراہم کرتے ہوئے انہیں بچانے کی کوشش کررہے ہیں اور ان کے ریفرنسز کو داخل دفتر کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن انہیں یہ مصیبت آرے آرہی ہے کہ ان کے سامنے ایک جیتا جاگتا شخص سلیم اختر صدیقی مدعی کی شکل میں موجود ہے جو بدقسمتی سے ایک سابق ڈی آئی جی پولیس اور موجودہ ہائی کورٹ کا وکیل بھی ہے جس کی وجہ سے نہ تو انہیں ڈرایا جا سکتا ہے اور نہ ہی دھمکایا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے نیب کے ان افسروں کی ایمانداری اور اصول پرستی بھی داﺅ پر لگی ہوئی ہے جو ایک طرح سے نیب کے دیانتداری کے اعلیٰ نمونے تھے اور نیب کی ان کی وجہ سے ایک اچھی خاصی نیک نامی تھی مگر سلیم اختر صدیقی اور ان کے ان ریفرنسز نے نیب کے ان ایمانداروں اور اصول پرستوں کی بھی قلعی کھول کر ان کی ایمانداری پر سوالات کھڑے کر دیئے ہیں اور نیب کے افسران اور خود چیئرمین کو اب یہ فیصلہ کرنا مشکل لگ رہا ہے کہ وہ اے ڈی خواجہ سلطان علی خواجہ عبدالمالک اور جی ایم قریشی کے ریفرنسز کا کیا کریں؟
اب نیب کے پاس ان کے خلاف کارروائی کرنے کے اور کوئی رستہ ہی نہیں رہا، اس لئے کہ ایک تو نیب والوں کو سرے سے کوئی تفتیش ہی نہیں آتی کہ جس سے وہ سلیم اختر صدیقی کے ان الزامات کو کسی طرح سے غلط ثابت کریں اسی وجہ سے نیب کے لئے پریشانی پیدا ہو گئی ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ نیب سے انصاف نہ ملنے پر سلیم اختر صدیقی کہیں کورٹ کا راستہ اختیار نہ کرلیں؟
چیئرمین نیب کو چاہئے کہ وہ نیب کے اس واحد مدعی کو بلا کر ان کی شکایتوں کا ازالہ کریں تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی نیب میں آکر اطلاع فراہم کرنے کا حوصلہ ملے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں