بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 397

وزیر اعظم کا قابل تحسین قدم

وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں تحفظ حقوق والدین کا آرڈیننس عمل میں لا کر ایک ایسا اقدام اٹھایا ہے جو اس سے قبل کسی حکمران نے نہیں کیا۔ یقیناً وزیر اعظم کا یہ قدم قابل ستائش ہے کہ انہوں نے والدین کے تقدس کو سمجھا اور اولاد کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک زمانہ میں پاکستان میں والدین کا احترام ہوا کرتا تھا اُن کے حقوق کا خیال رکھا جاتا تھا اور ان کے احکام کی پاسداری کی جاتی تھی مگر آہستہ آہستہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی والدین کو گھروں میں رکھنے کے بجائے اولڈ ہومز سے منتقل کیا جانے لگا اور وہ ملک جہاں والدین کے سامنے زبان کھولنا محال تھا آج انہیں ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے۔ اپنے بیوی بچوں کو ماں پر فوقیت دی جاتی ہے جب کہ قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ واضح طور پر والدین کے حقوق کا تذکرہ فرمایا ہے۔ سورة بقرة اور سورة النساءکے علاوہ بھی کئی ایک مقامات پر والدین کے حقوق کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سخت احکامات دیئے ہیں۔ والدین کے لئے بچے جوان بھی ہو جائیں، شادی شدہ ہو جائیں اور باپ بن جائیں تب بھی وہ والدین کے لئے بچے ہی ہوتے ہیں ان کی شفقت اور محبت میں کمی نہیں آتی بلکہ وہ اپنی اولاد کے بچوں میں اپنی اولاد کا عکس دیکھتے ہیں کہ مثل مشہور ہے کہ ”اصل سے سوت پیارا ہوتا ہے“۔ یوں بچے بھی اپنے دادا دادی، نانا نانی کا احترام کرتے ہیں بشرط یہ کہ انہیں اس بات کی تلقین کی جائے اور سخت تاکید اور ترغیب دی جائے مگر آج کل دولت کی ریل پیل میں ہم بھول جاتے ہیں کہ والدین سے کس طرح کا برتاﺅ روا رکھنا ہے۔ اکثر بیٹے اپنی بیوی اور والدین میں توازن نہیں رکھ پاتے اور یوں گھر مسائل کی آماجگاہ بن جاتا ہے یا تو والدین کی محبت میں بیوی بچوں کو مشکلات میں ڈال دیا جاتا ہے یا پھر بیوی بچوں کے لئے والدین کو اولڈ ہوم میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ بیرون ممالک میں تو یہ پریکٹس عام ہے کہ والدین کو اولڈ ہوم میں ڈال کر لوگ بھول جاتے ہیں اور پھر ان کی شکل جب ہی دیکھتے ہیں جب انہیں منوں مٹی تلے دفنانے کا وقت آتا ہے۔
نہ جانے آخری سانس تک ماں یا باپ نے کس قدر بچوں کو پکارا ہو گا، کس قدر یاد کیا ہو گا مگر ہمارا احساس مر چکا ہے، ہم اپنے روزمرہ معاملات میں اس قدر مصروف ہیں اور ہماری بے حسی اس قدر شدید ہے کہ ہم سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اور نبی کریم کے والدین کے بارے میں کیا احکامات ہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ میرا بیٹا مجھ سے حساب مانگتا ہے۔ رسول اللہ شدید جلال میں آگئے اور رو پڑے فرمایا کہ تیرے بیٹے کے مال پر تیرا حق ہے اور اس کے بیٹے کو سخت سرزنش کی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہاری بھلائی اس میں ہے کہ تم والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اور والدین کو اُف بھی نہ کہو۔ نبی کریم سے ایک صحابی نے والدین کے بارے میں سوال کیا کہ والد اور والدہ میں کس کا حق زیادہ ہے تو تین
بار نبی نے والدہ کا کہا اور چوتھی بار والد کے احترام اور خدمت کی تاکید کی کیونکہ ماں 9 ماہ بیٹے کو اپنے پیٹ میں رکھتی ہے اور ماں کو خون چوس کا بچہ پلتا ہے۔ پھر پیدائش کے بعد دو سال تک ماں کی توانائی چوستا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ ماں کی خدمت کے عوض جنت کی ضمانت دی گئی ہے چنانچہ ہمیں والدین اور اپنے بیوی بچوں کے معاملہ میں توازن برقرار رکھنا چاہئے۔ آپ کی بیوی بھی کسی کی بیٹی ہے۔ اس سے حسن سلوک بھی آپ پر لازم ہے جب کہ آپ کے والدین بھی بڑھاپا کو پہنچ کر آپ سے کچھ وقت چاہتے ہیں۔ اُن کا دل چاہتا ہے کہ آپ ان کے پاس بیٹھیں ان سے باتیں کریں مگر ہم مصروفیت کا بہانہ کرکے اپنے بیوی بچوں پر توجہ مرکوز کر دیتی ہیں جو کہ افسوسناک عمل ہے۔ جس طرح کعبتہ اللہ کی جانب دیکھتے رہنا بھی ایک عبادت ہے اسی طرح والدین کے چہروں کو دیکھ کر محبت سے مسکرانا بھی ایک عبادت ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے والدین کے دل میں اپنی شفقت ڈالی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے والدین کے دل میں احساس محرومی پیدا نہ ہونے دیں اور ان کے حقوق کا مکمل تحفظ کریں کہ یہی حکم الٰہی اور تاکید رسول ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں