بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 421

وقار خان کا سفر زندگی تمام ہوا

وقار خان سے میری پہلی ملاقات برسوں قبل پاکستان قونصلیٹ میں ہوئی، اُس زمانے میں ٹورانٹو کے قونصل جنرل غالب اقبال ہوا کرتے تھے۔ ہماری ایڈیٹر محترمہ ثروت سیدہ نے ہمیں ملوایا کہ یہ پاکستان جشن آزادی پریڈ اور میلہ آرگنائز کررہے ہیں، اس زمانے میں جشن آزادی پریڈ ٹورنٹو ڈاﺅن ٹاﺅن میں منعقد ہوئی اور بعدازاں وقار خان جشن آزادی کی تقریبات کے حوالہ سے شدید تنقید کا شکار بھی ہوئے اور ہم سے خاصے ناراض بھی رہے کہ ہمارے اخبار نے کچھ تنقیدی کالم چھاپ دیئے جو وقار خان کی طبعیت پر شاید گراں گزرے مگر پھر وقت کے ساتھ ساتھ معاملات نارمل ہوگئے۔ یوں وقار خان جب بھی کہیں ملے، نہایت خلوص محبت کے ساتھ، وہ ایک خوش لباس، خوش گفتار انسان تھے اور انسان دوست بھی تھے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق اُن کی ایک اہلیہ پاکستان میں مقیم ہیں جن سے وقار خان کے تین بچے ہیں، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں۔ وقار خان اپنی پاکستان میں مقیم اہلیہ سے علیحدگی کے بعد کینیڈا آئے تو اپنی دو بیٹیوں کو ساتھ لے آئے جب کہ اُن کا ایک بیٹا اپنی والدہ کے پاس ہی رہا۔ کینیڈا آکر انہوں نے دوسری شادی عروج نامی خاتون سے کی مگر یہ تعلق بھی کچھ عرصہ میں اپنے اختتام کو پہنچا تو وقار خان نے وفا ملک جو کہ ایک رئیلٹر بھی ہیں کو اپنی زندگی میں شامل کیا۔ دونوں بیٹیاں بھی وقار خان کے ساتھ ساتھ رہیں مگر پھر پہلے ایک بیٹی اور بعدازاں دوسری بیٹی بھی گھر سے چلی گئیں اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے لگیں۔
وقار خان کی چھوٹی بیٹی بہرحال اُن سے رابطہ میں رہی۔ وفا ملک کا ساتھ بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور یہ رشتہ بھی ختم ہوگیا اور اس رشتہ کے اختتام کی وجہ بھی اُن کی نئی بزنس پارٹنر، مدیحہ ملک بنیں جو دھاگے فیشن آﺅٹ لیٹ کی مالک تھیں جب کہ وقار خان کاروان کباب ہاﺅس کے نام سے فوڈ بزنس سے وابستہ ہوگئے۔ حال ہی میں مدیحہ ملک اور وقار خان نے اپنے بزنس کو وسیع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا مگر کرونا وائرس کے سبب ان کے پلان میں کچھ تبدیلیاں رونما ہوگئی مگر دونوں کا جلد نئے انداز سے اپنے بزنس کو چلانے کا ارادہ تھا کہ انہیں موت نے آ دبوچا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وقار خان کافی عرصہ سے نشہ کی لت میں مبتلا تھے جس نے انہیں آہستہ آہستہ بری طرح جکڑ لیا یوں وقوعہ کے روز بھی وقار خان مدیحہ ملک کے ہاں ان کے گیراج میں جسے انہوں نے میٹنگ روم (بیٹھک) میں تبدیل کرلیا تھا موجود تھے۔ ویک اینڈ کے سبب حد سے زیادہ آگے نکل جانے کے باعث یہ دونوں بزنس پارٹنرز خود کو نہ سنبھال پائے اور ضرورت سے زیادہ ہائی ہونے کے سبب چل بسے۔ اگلے روز جب گھر میں موجود بچوں نے انہیں تلاش کیا تو گھر کے گیراج میں مردہ حالت میں پایا۔ یوں پولیس کو اطلاع دی گئی اور ان کی میتیں پوسٹ مارٹم کے لئے بھجوا دی گئیں بعدازاں اوک ول کے قبرستان میں گزشتہ پیر کے روز وقار خان کو سپرد خاک کردیا گیا جب کہ مدیحہ ملک کی تدفین جمعرات 10 دسمبر کو ہوگی۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، آمین۔ ہمیں وقار خان کی اس سچی خبر سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ہمیں وقت کے ساتھ ساتھ خود کو تبدیل کرنا چاہئے۔ بچیاں بڑی ہو جائیں تو ہمیں بھی اپنے شوق بالائے طاق رکھ کر بچوں کے مستقبل کی فکر کرنا چاہئے۔ اپنی ذات سے باہر نکل کر ہمیں اپنی ان ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کی سعی کرنا چاہئے جن کا حکم اللہ تعالیٰ اور ہمارے نبی نے دیا ہے مگر ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ وقار خان اور مدیحہ ملک نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور جس کے نتیجہ میں وہ اپنے سارے پلان ادھورے چھوڑ کر اس دارفانی سے کوچ کر گئے اور کمیونٹی کو یہ سبق دے گئے کہ خود کو نشہ کا عادی بنانا نہ صرف اس انسان کے لئے بلکہ اس سے وابستہ تمام لوگوں کے لئے دُکھ کا باعث بنتا ہے اور پورے پورے خاندان اور ہنستے کھیلتے گھرانے پل بھر میں ویران ہو جاتے ہیں۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ وقار خان اور مدیحہ ملک کے معاملہ میں رحم کا معاملہ فرمائے، آمین اور وقار خان اور مدیحہ ملک کے بچوں کو اپنے ماں باپ کی جدائی سہنے کی ہمت دے، آمین۔
(اس کالم لکھنے کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں بلکہ کمیونٹی کو یہ بتانا مقصود ہے کہ ہمیں زندگی میں بہت سے معاملات پر غور و فکر کرنی چاہئے تاکہ ہماری کمیونٹی اور ہماری آئندہ آنے والی نسل صحیح سمت کا تعین کر سکے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں