عمران خان توجہ فرمائیے! 166

وقت جب فیصلہ کرتا ہے تو گواہوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔۔۔

کہتے ہیں وقت جب فیصلہ کرتا ہے تو گواہوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بیرونی سازش کے نتیجے میں جب سے عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجا گیا ہے ایسے لگتا ہے کہ وطن عزیز کو ہر طرف سے بھیڑیوں نے گھیر رکھا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ، پی ڈی ایم، بیورو کریسی اور کاروباری مافیا نے میڈیا کے ساتھ مل کر ایک نہتے شخص عمران خان پر حملہ کردیا ہے۔ پچھلے آٹھ مہینوں میں جس بے دردی کے ساتھ معیشت کا جنازہ نکالا گیا ہے وہ دیکھکر بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا ہے۔ دیار غیر میں ہوتے ہوئے بھی کانوں سے دھواں نکلنے لگتا ہے۔ پی ڈی ایم کے ناسوروں کو جس طرح ہم پر مسلط کیا گیا ہے اس کا اکیسویں صدی میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں سوشل میڈیا کسی کا لحاظ نہ کرتے ہوئے ہر چیز منظر عام پر لے آتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ موجودہ امپورٹڈ حکومت کو کیسی کیسی گارنٹیاں دی گئی ہیں کہ وہ ماورائے آئین و قانون ہر کام بڑی ڈھٹائی سے کرتی چلی جارہی ہے۔ چاہے وہ عمران خان پر دو درجن سے زائد مقدمات ہوں، اعظم سواتی اور شہباز گل پر بہیمانہ تشدد ہو یا پھر ارشد شریف (شہید) اور باقی صحافیوں کے خلاف کھلم کھلا غیر قانونی ایف آئی آرز اور گرفتاریاں ہوں۔ اللہ اللہ
پچھلے دنوں میرے ساتھ انٹرویو میں محترم اوریا مقبول جان نے کھل کر اس اچنبھے کا اظہار کیا کہ پہلی دفعہ ایسا دیکھا ہے کہ اگر ایک ادارہ یعنی فوج آپ کے خلاف ہو گئی ہے تو عدلیہ سمیت کوئی بھی ادارہ آپ کی بات نہیں سن رہا۔ چاہے وہ الیکشن کمیشن ہو یا بیوروکریسی یا پھر میڈیا کا بہت بڑا حصہ۔ ھنگ (Hung) پارلیمنٹ نے نیب قوانین، اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق، ای وی ایم مشین کا استعمال سمیت بہت سارے قوانین تبدیل کردیئے یا پھر سرے سے ختم ہی کردیئے جو کہ براہ راست موجودہ حکومت کے ڈمی وزیر اعظم شہباز شریف سمیت تمام حکومتی اور اتحادی کرپٹ ٹولے کو این آر او ٹو (NRO-2) دینے کے مترادف ہے۔ تمام کرپٹ سیاستدانوں کے کیسز ختم ہو چکے ہیں اور کئی کیسز میں یہ لوگ با عزت بری بھی ہو چکے ہیں۔ اس شعور کے دور میں انہوں نے ایسی دیدہ دلیری دکھائی ہے کہ اس سے صاف عیاں ہے کہ بیرونی آقاﺅں کے اشارے پر فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے اس کھیل میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
عمران خان نے اب اپنے تازہ انٹرویو میں بھی کھل کر اس بات کا اظہار کردیا ہے کہ کس طرح باجوہ نے خان کو اور اپوزیشن کو شٹل کاک بنائے رکھا اور مزیداری کی بات یہ ہے کہ باجوہ کے چھ سالوں میں چار وزرائے اعظم کک آﺅٹ ہوئے اور موصوف نے اپنی توسیع کا آخری دن بھی پورا کیا۔
یہ ہوتی ہے طاقت! ہمارے تمام سیاستدان تو مہا بے وقوف ہیں جو پچھلے پچھتر سالوں سے ایک دوسرے کے دست و گریباں ہیں۔ فوج کی بار بار مداخلت کے یہ خود ذمہ دار ہیں، یہی کرپٹ، نالائق اور اقتدار کے بھوکے ہیں جو کہ ہر بار جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر 4 کے باہر بیٹھے رہتے ہیں کہ کیا چیف ان کو زیارت کروائے اور یہ اس کے تلوے چاٹیں۔ انہوں نے فوج کے جرنیلوں کو ناقابل تسخیر بنا دیا ہے حالانکہ آئینی طور پر فوج ملک کا ایک ادارہ ہے۔ ہاں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر ایسا بھی کیا کہ آپ انہیں مسیحا سمجھ لیں۔
ہم بیرون ملک جب عام ہندوستانی لوگوں سے ملتے ہیں تو زیادہ اچھا لگتا ہے بہ نسبت چائنیز لوگوں کے۔ دونوں ملکوں سے ہماری دوستی اور دشمنی سب پر عیاں ہے مگر برصغیر کے تمام رہنے والوں کا ایک ہی موقف ہے کہ ہمارے خطے میں سیاست دان اور فوج اپنے مذموم مقاصد کے پیش نظر امن و آشتی پیدا نہیں ہونے دیتی۔ وگرنہ ہم دونوں ممالک کے لوگ یہاں بڑے پیار محبت سے رہتے ہیں، ایک ساتھ کام کرتے ہیں، کاروبار کرتے ہیں، دعوتیں کھاتے ہیں، فنون لطیفہ کی محافل اٹینڈ کرتے ہیں۔ ہمار کھانے، لباس، کلچر اور بودوباش ایک جیسے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم یوروپی ممالک کی طرح اچھے ہمسایوں کی طرح نہیں رہ سکتے۔ یاد رکھئیے کہ ہمسائے بدلے نہیں جا سکتے، ہاں ان سے دوستی مضبوط ہو سکتی ہے۔ یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ انڈوپاک چپقلش میں زیادہ نقصان ہمارا ہو رہا ہے اگر آپ اعداد و شمار اٹھا کر دیکھیں تو ہندوستان ہم سے ہر شعبے میں بہت آگے نکل گیا ہے حتیٰ کہ خطے کے دوسرے ممالک یعنی بنگلہ دیش، افغانستان، سینٹرل ایشیئن ریاستیں، فار ایسٹ ممالک پاکستان کو دہائیوں پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔
اس انارکی کی سب سے بڑی وجہ قانون کی بالادستی نہ ہونا ہے۔ ہمارے مشاہدے میں آئے روز یہ باتیں آتی ہیں کہ کس طرح ایک کمزور اور غریب انسان کے ساتھ سلوک روا رکھا جاتا ہے اور طاقتور کے لئے یکسر مختلف قانون ہے جو کہ ہر جرم کرکے بھی چھوٹ جاتا ہے۔ ہماری عدلیہ نیچے سے لے کر سپریم کورٹ تک انتہائی کرپٹ اور مفاد پرست ججوں پر مشتمل ہے۔
حالیہ دنوں میں تین چار بڑے واقعات ہوئے جن پر سپریم کورٹ کا ردعمل ایک تھرڈ کلاس نشئی سے زیادہ نہیں رہا۔ عمران خان پر قاتلانہ حملہ کی ایف آئی آر، شہباز گل پر تشدد، اعظم سواتی کے ساتھ نہ صرف تشدد بلکہ اس کی اہلیہ کی غیر اخلاقی ویڈیو کا معاملہ اور ارشد شریف کا قتل، یہ تمام کیسز سپریم کورٹ میں پینڈنگ پڑے ہیں اس کے علاوہ نیب کے قوانین میں ترامیم کی رٹ پٹیشن بھی سست روی سے چل رہی ہے۔ جیسا کہ انصاف مہیا کرنے والے ممالک کے انڈیکس میں ہماری عدلیہ کا 110 واں نمبر ہے تو اس سے عیاں ہے کہ ہمارے ہڈ حرام ججز کی کارکردگی کیا ہے۔ یہ سیاست دانوں کے کیسز میں ادھورا انصاف دے کر چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان کے سر پر تلوار لٹکائے رکھتے ہیں کہ جب دل چاہے وہ کیسز کھول لئے جائیں اور ان کو کٹہرے میں بلا لیا جائے۔ یہ بدنیت اور بدکردار لوگ ہیں جن کی آڈیو، ویڈیو ٹیپ خفیہ ایجنسیوں کے پاس ہیں جو کہ ان کو اپنی مرضی کے فیصلے لینے کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ آج کے حالات ایک خونی انقلاب کی نوید سنا رہے ہیں اس کے بغیر یہ کینسر زدہ نظام اور معاشرہ صراطِ مستقیم پر نہیں آسکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں