290

وقت کا بہاﺅ اور ایک عام ہیرو

تحریر حبیب شیخ
ایک عام انسان۔
ایک خاص الخاص انسان۔
ہونہار طالبِ علم، علم سے عشق، دولت اور شہرت سے کوئی سروکار نہیں۔
مسعود علی جب کنیڈا آیا تو ایک مشہور بیمہ کمپنی کا خط ہاتھ میں تھا۔ یہ خط لے کر وہ بیمہ کمپنی کے دفتر گیا اور اگلے روز سے کام پر جانا شروع کر دیا۔
بیسیوں لوگوں کی مستقل سکونیت کے حصول اور کام دلوانے میں مدد کی، حتّیٰ کہ کچھ کی شادیاں بھی کروائیں۔
بھائیوں کو کنیڈا بلوایا اور بہنوں کی تعلیم مکمل کروائی اور ان کے گھر بسائے۔
وقت کا دھارا سکون کے ساتھ بہتا رہا۔
کمپنی میں کام کرتے ہوئے ڈاٹا وئیرہاوسنگ Data Warehousing سے واسطہ پڑا تو اس کو اوپر سے لے کر نیچے تک، باہر سے لے کر اندر تک چھا ن بین ڈالا اور مہارت حاصل کر لی۔
پھر کچھ دوستوں کو اس مضمون کے بارے میں پڑھایا اور اس کے سوفٹ وئیر software کا استعمال سکھایا۔ یہ دوست بھی اس فیلڈ میں داخل ہوئے اور کامیاب ہوگئے جن میں سے ایک میں بھی ہوں۔
وقت کا دھارا سکون کے ساتھ بہتا رہا۔
اس وقت کے بہاﺅ میں مسعود علی کی کشتی میں شہلا سوار ہو گئی، دونوں خلوص اور محبت کے پیکر، خود غرضی سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔
اپنے گھر کے دروازے ہمیشہ سب کے لئے کھلے رکھے مذہب، مسلک اور رنگ و ذات کی تفریق کے بغیر۔
وقت کے بہاﺅ میں اضطراب آیا اور مسعود علی کی بینائی کو کمزور کردیا۔ کام چھوڑ دیا لیکن علم کی پیاس اور بھڑک اٹھی۔
برِّصغیر کی تاریخ، ثقافت، اور سیاست پر نظر اور گہری کر دی اور یوگا کی مشقوں کے ساتھ خوب دوستی بڑھا لی۔
وقت کے دھارے نے پھر سکون کے ساتھ بہنا شروع کر دیا۔
اچانک اِس پر سکون بہاﺅ میں کہیں سے ایک طغیانی آگئی۔
سرطان اندر ہی اندر پھیل چکا تھا اور ا±س کی شکست ممکن نہیں تھی۔
جولائی دو ہزار بیس کی ایک شام کو وقت مسعود علی کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔
سینکڑوں لوگ مسعود علی کی یاد میں غم زدہ ہو گئے۔ وہ ان سب کے ہیرو جو ٹہرے۔
اگر دنیا کے بیشتر لوگ مسعود علی کی مانند بے غرض ہو جائیں تو یہ کرہِ ارض ہی جنت بن جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں