پاکستانی حکمران اور جادو ٹونا 156

پاکستانی حکمران اور جادو ٹونا

کیا تانبے کا گلاس ہاتھ میں بلا ناغہ لے کر نکلنے سے آپ سرکشت رہیں گے اور پیر بابا کی کیلکولیشن کے مطابق آپ کی جان مال آبرو بھی محفوظ رہے گی؟ کیا یہ سچ ہے کہ کامیابیاں آپ کے قدم چومیں گی؟ اس کے علاوہ دشمن کا ہر جادو زیر ہو گا بس گلاس تھامے رہنا گا؟
کیا جمعرات کی شام مغرب کے وقت گھر کی چھت پر ڈیڑھ کلو گوشت رکھوا دینے سے کوہ قاف کے جنات کی آشیرباد بھی رہے گی اور میاں بیوی کی محبت قائم و دائم رہے گی؟ کیا اس کی برکات سے وزارت عظمی کا دور مزید طویل ہو گا اور کیا امید رکھیں کہ یہ جلد ہی خلافت میں تبدیل ہو کر تا حیات امر ہو جائے گا؟
کیا ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ کے لئے ”ع“ سے جس کا نام شروع ہو گا وہ صوبے کی ترقی کے لیے بہت بھاگیہ شالی رہے گا؟ کیا امید رکھیں کہ اس ایک حرف کی کرامت سے تمام ترقیاں تعیناتیاں آپ کی دہلیز سے ہی جاری ہوں گی، دوستوں اور سہیلیوں کے بھی نصیب کھل جائیں گے؟
کیا انتخابات قریب آنے پر اگر آپ گہرے سمندر کی کشش سے دور نکل کر کسی اونچے پہاڑی پر فضا مقام پہ منتقل ہوجائیں تو یہ آپ کے لئے بڑا نیک شگن ہو گا؟ قوی امکان ہے کہ برخوردار بھی ابا کی تابعداری میں رہ کر پولی پولی سی ڈھولکی بجاتے رہیں۔ یاد رکھیں ایک سیانے نے کہا تھا کہ زیادہ پہاڑ اونچا ہو گا تو زیادہ اونچا بخت ہو گا!
جی ہاں یہ بات ہو رہی ہے پاکستان میں بسنے والے مراعات یافتہ سیاسی مرد و زن کی۔ وہی پاکستان جسے قائد اعظم نے بنا کسی اسٹیل کے گلاس، جنات کی دعوت، حروف تہجی یا اصول نمریالوجی کے انگریز کے منہ سے چھین کر دنیا کو بنا کر دکھا دیا تھا۔ وہی پاکستان جس کی خاطر لاکھوں لوگوں نے بغیر کسی پیر بابا سے مشورہ کیے بابا جناح کی بات پر عمل کرتے ہوئے ہجرت کردی تھی۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اب یہ ملک تعویز گنڈوں اور انڈوں کی آرتی اتارنے سے لے کر، تسبیحوں کی گنتی پھیرنے، پیر بابا کی عطا کی گئی ریاضی اور دستار زدہ ملا¶ں کے مناظروں کی جگت بازی کی نظر کر دیا گیا ہے۔ یہاں کوئی پریکٹکل ازم یا رئیل ازم نہیں بلکہ ملا ازم رائج ہو چکا ہے۔ فیصلے اب ایوانوں میں نہیں آستانوں میں کیے جاتے ہیں۔ دشمن اب آستینوں میں نہیں سر چڑھ کر دھمال ڈال رہا ہے اور قوم صمµ بکمµ عمیµ فھم لا یرجعون کی تصویر بنی بیٹھی ہے۔ ایسے میں ہم صرف انا للہ وانا الیہ راجعون کے اور کیا کہہ سکتے ہیں۔
اصل المیہ یہ ہے کہ یہ سب آج کے اس دور میں ہو رہا ہے جب پڑوسی بھارت کی چاند سے آگے تک کی نظر ہے۔ یہود و نصاری طبی و فلکی سائنس کے معجزات کو جنم دے رہے ہیں۔ چین جاپان بنا کسی کلمے کا ورد کیے ترقی کے اوج کمال تک پہنچ چکے ہیں عرب ممالک میں بلند و بالا عمارتوں کی کاروباری دنیا میں پوری دنیا انویسٹ کر رہی ہے اور ہمارے ماضی حال اور مستقبل کے فیصلے پانچویں جماعت فیل رنگ برنگے بابوں کے ٹوٹکوں میں قید ہیں۔
نجومیوں اور جوتشیوں کے بل بوتے چلنے والا یہ ملک نئی نسل کے لئے سوائے کنفیوڑن کے کچھ نہیں۔ یہ توہم پرست لوگ نہ تو آج تک ملک کی معیشت کو ترقی دے پائے، نہ درس و تدریس، صحت اور نہ ہی بنیادی سہولیات کی بہتری کے لئے اب تک کچھ کر پائے ہیں۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب لوگ کبھی نہ کبھی لندن، آکسفورڈ، کیمبرج، ہارورڈ، وغیرہ سے تعلیم کے حصول کے لئے گئے اور ہاتھ میں ایک کاغذ کی ڈگری لے کر پھر سے جہالت کے روایتی اندھیروں میں گم ہو گئے۔
ہمیں سوچنا ہو گا کہ آخر ہم کب عمل پسندانہ حقیقتوں کو سمجھ کر دنیا کے ساتھ پڑھے لکھی قوم کے افراد جیسا رویہ اختیار کریں گے؟ ہم کب تک توہمات کی بنیاد پر تخت و تاج کے فیصلے کرتے رہیں گے؟ اور ہم کب تک یونہی اپنی دماغوں کی بتی کو بجھا کر اندھی تقلید میں توہم پرست شخصیات کی بڑی بڑی پجارو کے پیچھے نعرے لگاتے رہیں گے؟
ہم کب اپنے دل دماغ اور زبان کو کھولیں گے اور سوال اٹھائیں گے کہ کیا چھتوں پہ گوشت عوامی مسائل کو حل کرنے کا کوئی نسخہ تھا یا پھر اسٹیل کے گلاس کو ہاتھ میں لے نکلنے سے عوام کو بجلی پانی کے بلوں میں کوئی ریلیف ملنے کا امکان ہے؟ کس کتاب میں لکھا ہے کہ اگر مرید اپنے ہی مرشد کو حجرے سے حجلہ عروسی تک لے آئے تو وہ مسلم امہ کا لیڈر بھی کہلائے؟ اور ہمارا مسیحا بھی؟
ہم کب سوال اٹھائیں گے کہ عوامی مسائل کا حل کسی ایک سپریم کورٹ کے جج، کسی من پسند جرنلسٹ کی بھاری بھرکم تنخواہ، کسی حاضر افسر کی ذہنی اختراع یا کسی پیر اور پیرنی کی دعا میں پوشیدہ نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی نیک نیتی سے کی جانے والی کاوش ہے جو قومی مفاہمت کے ساتھ ترجیحی بنیاد پہ حل کیے جانے کی متقاضی ہے۔
ہمارے پاس ایک عدد اسلامی نظریاتی کونسل ہے جس کے پاس نہ تو اسلام ہے نہ نظریہ بس بھاری بھرکم تنخواہ والی کونسل ہے جس نے کبھی ان غیر شرعی اعمال کی مذمت نہیں کی جس نے قوم کو کبھی شعار اسلامی کی اصل روح نہیں سمجھائی اور جس نے پاکستان کی اس مسخ ہوتی ہوئی اسلامی شناخت اور اصل عقیدے کی حرمت کی بقا کے دفاع میں کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
بڑے بڑے مفتیان اور علمائے کرام کی نظر مسلکی اختلاف، فرقہ ورانہ بحث مباحثوں اور دینی مناظروں تک تو رہی لیکن قوم کی درست سمت کا تعین کرنے میں یہ لوگ بھی ناکام رہے۔ یہی جرم ہماری عدلیہ، مقننہ اور اشرافیہ کا بھی ہے اور وہ سب بھی معاشرے میں پنپنے والے اس توہم پرست بیانئیے کے ذمہ دار ہیں اور اب اس کا حل بھی انہیں ہی نکالنا ہو گا۔
یاد رکھیں معجزات کا زمانہ گزر کا ہے، ملک توہم پرستی سے نہیں عمل پرستی سے چلے گا۔ صاحب کرامات سادہ دل افراد کو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر دھوکہ دینے اور بیوقوف بنانے کی کہانی ہے اور اب اس کہانی کا یہ آخری باب ختم ہونے کا وقت ہو چلا ہے۔ امید ہے کہ اس جادو ٹونا و توہم پرستی کے راج کے خلاف بھی کوئی کارروائی ڈالی جائے گی ورنہ جس تیزی سے یہ جہالت چاروں جانب پھیلتی دکھائی دے رہی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ جلد ہی ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں