750

پاکستانی ماہرین نے آم کے ذائقے، خوشبو اور رنگت کے جینیاتی راز دریافت کرلیے

کراچی: اپنی لذت، خوشبو اور رنگت کی بنا پر آم ’پھلوں کا بادشاہ‘ کہلاتا ہے۔ تاہم اب پاکستانی ماہرین کی ان تھک محنت سے دنیا کے چار مشہور آموں کے بعض اہم جینیاتی راز منظرِ عام پرآگئے ہیں۔
کراچی میں واقع محمد علی جناح یونیورسٹی میں شبعہ حیاتیاتی علوم کے سربراہ ڈاکٹر محمد کامران عظیم کی سربراہی میں ماہرین نے پاکستان کے لنگڑا آم، اسرائیل کے شیلی، چین کے زِل اور میکسیکو کے مشہور آم کینٹ کی رنگت، لذت اور خوشبو کی تشکیل کرنے والے بعض اہم جین اور پروٹین دریافت کرلیے ہیں۔
اس تحقیق کا اہم مقصد دنیا کے مختلف علاقوں میں آم کی مشہور اقسام کے مشترکہ حیاتی سالمات (بایومالیکیولز) دریافت کرنا تھا جس میں بعض ایسے جین اور مرکبات ملے ہیں جو تمام آموں میں یکساں طور پر پائے گئے ہیں۔
آم کی خوش ذائقہ قاش کھاتے ہوئے ہم کبھی نہیں سوچتے کہ اس کی خوشبو اور لذت میں ایک دو نہیں بلکہ 500 انتہائی پیچیدہ کیمیکلز کارفرما ہوتےہیں۔ اب پاکستانی ماہرین نے اپنی تحقیق سے اس فہرست میں مزید کچھ سالمات اور جین کا اضافہ کردیا ہے۔
اس پروجیکٹ کے نگران ڈاکٹر محمد کامران عظیم ہیں جبکہ جامعہ کراچی میں واقع بین الاقوامی مرکز برائے حیاتیاتی و کیمیائی علوم ( آئی سی سی بی ایس) کے ڈاکٹر وقاص الدین اور محمد علی جناح یونیورسٹی کی اسکالر سفینہ عبدالرزاق اس دریافت میں شامل ہیں۔ اس کی تفصیلات کولڈ اسپرنگ ہاربر لیبارٹری کے ایک مو¿قر سائنسی جریدے میں شائع ہوچکی ہیں۔
ماہرین نے جدید ترین بایوانفارمیٹکس ٹولز کی مدد سے آموں کا جینیاتی اور سالماتی تجزیہ کیا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر وقاص الدین نے بتایا کہ آم کئی ممالک میں تجارتی پیداوار کا اہم ذریعہ ہے لیکن اب تک آم کا مکمل جینوم معلوم نہیں کیا جاسکا ہے۔ تاہم آموں کی بعض اقسام کا ٹرانسکرپٹومکس ڈیٹا (کسی خاص حالت میں کسی خاص ٹشو یا حصے کے آر این اے بنانے والا مکمل جینیاتی سیٹ) موجود ہے۔
آم کے ڈیٹا میں کارآمد معلومات کی تلاش
آم کی چاروں مشہور اقسام سے ملنے والا جینیاتی ڈیٹا بہت ہی بڑا تھا۔ کئی گیگا بائٹس وسیع اس ڈیٹا میں اہم شئے کو تلاش کرنا ایک اہم اور صبرآزما مرحلہ تھا۔
ماہرین نے ابتدائی طور پر لنگڑا کے 30,953، زل کے 57,544، شیلی کے 58,797 اور کینٹ کے 85,036 یونی جین تلاش کیے۔ واضح رہے کہ یونی جین ایک پیچیدہ اصطلاح ہے جو این سی بی آئی امریکہ میں موجود جینیاتی ڈیٹا بیس کو ظاہر کرتی ہے۔
’جینیاتی ڈیٹا حاصل ہونے کے بعد اصل لطف شروع ہوتا ہے۔ جینیاتی ڈیٹا میں آموں کے جین، ان سے بننے والے پروٹین اور اس عمل کا مکمل طریقہ کار (پاتھ ویز) دریافت ہوئے۔ اس تحقیق سے ان گنت نئے راستے کھلے ہیں جہاں آموں کے دیگر دلچسپ پہلوو¿ں پر مزید تحقیق ہوسکتی ہے،‘ ڈاکٹر وقاص الدین نے نیوز کو بتایا۔
اپنے فرحت بخش ذائقے اور تجارتی اہمیت کی بنا پر آم نہ صرف کسی سپراسٹور کے لیے اہم ہے بلکہ خود سائنسدانوں کی تحقیقی میز پر اس کی بہت اہمیت ہے۔ پاکستانی ماہرین کے کام سے معلوم ہوا ہے کہ کئی اہم جین اور ان سے پروٹین بننے کے طریقہ کار سے آموں کے ذائقے رنگت کی تشکیل ہوتی ہے۔ اس سے کئی پیچیدہ حیاتیاتی کیمیکلز وجود میں آتے ہیں جن میں ٹرپنوئڈز، فلیوینوئیڈز اور کیروٹینوئیڈز وغیرہ شامل ہیں۔
بتاتے چلیں کہ فلیوینوئیڈز بہت سے پھلوں اور پھولوں کو ان کا دلفریب رنگ دیتے ہیں۔ پاکستانی ماہرین نے تمام آموں میں کئی اہم فلیوینوئیڈز دریافت کئے ہیں۔
اس کے علاوہ زِل اور شیلی آموں میں لائسوپین اور بی ٹا کیروٹین دیکھے گئےہیں۔ یہ دونوں قدرتی رنگ (پگمنٹ) ہیں جو کئی طرح کے آموں، پھلوں اور سبزیوں کو سرخ، شوخ پیلا اور نارنجی رنگ دیتے ہیں۔
آم کے طبی فوائد
کئی طرح کے مفید وٹامن اور معدنیات آموں میں پائے جاتے ہیں۔ آموں میں بیکٹیریا اور وائرسوں کو روکنے والے کئی اہم کمپاو¿نڈز مل چکے ہیں۔
پاکستانی ماہرین نے لنگڑا آم میں لیوپوئل اور بی ٹا امائرِن نامی مرکبات دریافت کئے ہیں جو صحت کےلیے مفید ثابت ہوسکتےہیں۔ مثلاً لیوپوئل سوزش اور جلن کو کم کرنے اور رسولیوں کو بڑھنے سے روکتےہیں؛ جبکہ بی ٹا امائرن بھی جسم کی اندرونی جلن کم کرنے کے ساتھ ساتھ چربی گھٹانے میں مفید ثابت ہوتےہیں۔
ڈاکٹر کامران عظیم اب سے دس برس قبل آم کے کلوروپلاسٹ (درخت کے سبز خلیات) کے مکمل جینوم کا ڈرافٹ (ابتدائی نقشہ) تیار کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ میں آم کی فصلوں کو نقصان پہنچانے والے، ایک خاص قسم کے جرثوموں (بیکٹیریا) کی شناخت بھی انہوں نے ہی کی تھی۔ شہد کے کئی اہم پہلوو¿ں پر بھی انہوں نے تحقیقی کام کیا ہے۔
’ہماری حالیہ تحقیق نہ صرف پاکستان بلکہ چین، مشرقِ وسطیٰ، اور شمالی امریکہ کے اہم آموں کی حیاتیاتی کیمیا کا احاطہ کرتی ہے۔ اس تحقیق کو عالمی پذیرائی ملی ہے جس کا حوالہ کئی بین الاقوامی سائنسدانوں نے بھی دیا ہے.
بلاشبہ آم کی پیداور پاکستانی معیشت کےلیے ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ تاہم پوری دنیا میں آم کی پیداوار میں بھارت نمبر ایک اور چین کا دوسرا مقام ہے جبکہ پاکستان اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ اس ضمن میں مزید تحقیق اس منعفت بخش فصل کو مزید بہتر بناسکتی ہے۔ اس ضمن میں پاکستانی ماہرین کے تحقیقی کاموں کو پذیرائی اور سرپرستی کی اشد ضرورت ہے۔
یہاں پاکستان سائنس فاو¿نڈیشن ( پی ایس ایف) اعلیٰ تعلیمی کمیشن (ایچ ای سی) اور پاکستانی زرعی تحقیقی کونسل (پی اے آر سی) کی جانب سے آم پر جاری تحقیق کےلیے فنڈنگ کی اشد ضرورت ہے۔ ان ماہرین کے کام کی سرپرستی سے ہم آم کی پیداوار اور اس سے حاصل ہونے والی برآمدی رقم میں خاطر خواہ اضافہ کرسکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں