بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 396

پاکستان جہاں کوئی لاک ڈاﺅن نہیں

گزشتہ کئی ہفتوں سے اسلام آباد اور کراچی میں رہا مگر نہ کہیں لاک ڈاﺅن نظر آیا، نہ لوگوں کے رش میں کمی دیکھنے میں آئی، بازاروں میں بے پناہ رش، ریسٹورنٹس کھچا کھچ بھرے ہوئے، نہ کسی نے ماسک، نہ چھ فٹ کا فاصلہ، لوگ گلے مل رہے ہیں۔ گرمجوشی سے ہاتھ ملا رہے ہیں، کوئی نہیں جانتا کہ کتنے کروڑ لوگ کورونا کو بھی سہہ بھی گئے اور نہیں جانتے اور نہ جانے کتنے لوگ کرونا اپنے دامن میں سمیٹے گھوم پھر رہے ہیں۔
یہ ضرور ہے کہ بیرون ممالک سے پاکستان آنے والے بے حد محتاط نظر آتے ہیں مگر وہ بھی تمسخر کا نشانہ بنتے ہیں۔ حیرت ناک بات ہے کہ پاکستان میں شرح اموات بھی وہ نہیں جو یہاں کے حالات کے بعد ہونا چاہئے تھیں بلکہ لوگ روزمرہ کاموں کو نارمل طریقہ سے سر انجام دے رہے ہیں۔ لوگوں کے کاروبار پر فرق ضرور پڑا ہے مگر اگر اس کا موازنہ یورپین ملکوں یا امریکہ، کینیڈا سے کیا جائے تو صورتحال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ پاکستان میں سب کچھ اللہ توکل پہ چل رہا ہے۔ لوگوں کا یقین بلا کا ہے کہ بیماری اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ شدید وائرس سے بھی پاکستانی خوفزدہ نہیں کیونکہ مسلمان موت سے نہیں ڈرتا اور دنیا موت سے خوفزدہ ہو کر گھروں میں مقید ہے۔ امریکہ اور کینیڈا کی معاشی صورتحال روزبروز ابتر ہوتی جارہی ہے۔ لوگ نفسیاتی مریض بن رہے ہیں۔ ایک بہت بڑی جنگی صورتحال عوام کے مابین دکھائی دیتی ہے جو کرونا کو حقیقت سے تعبیر کرتے ہیں اور ایک بڑا طبقہ اسے معیشت کو تباہ کرنے کی سازش قرار دیتا ہے۔ ایک نئی جنگ کا آغاز ویکسین کی فراہمی کے ساتھ شروع ہو گا کہ ویکسن لینے والے اور ویکسن سے انکار کرنے والے دو حصوں میں تقسیم ہوں گے اور یہ جنگ دنیا کو ایک نئی صورتحال کی جانب دھکیلے گی۔ امریکہ کینیڈا کے علاوہ دنیا کے کئی ایک ممالک اپنی اپنی ویکسین پر کام کررہے ہیں۔ سننے
میں آیا ہے کہ ناروے میں 21 افراد ویکسین لینے کے بعد موت سے ہمکنار ہو گئے۔ ابھی ویکسین بھی ٹرائل کے مرحلہ میں ہے اور تقریباً 120 قسم کے کورونا وائرس دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ اب اس کا فیصلہ کون اور کب کرے گا کہ کون سی ویکسین کس ملک کے افراد کے لئے زیادہ کارآمد ہے۔ یقیناً یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس کا جواب اس وقت کسی کے پاس نہیں۔ ہاں صرف ایک طاقت ہے وہ جو اس کائنات کا بنانے والا ہے۔ اُس کی وحدانیت اور طاقت خود کو ثابت کررہی ہے کہ ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ اللہ کے حضور سربسجود ہو جائیں اور اللہ کی پناہ مانگیں، اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی صحت و تندرستی کی ضمانت اللہ جل شانہ کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں