گالم گلوچ 241

پاکستان معاشی مشکل میں۔۔۔؟

پاکستان کے سیاسی آسمان سے بھی بعض اوقات بن بادلوں کے بارش ہو جاتی ہے۔ ان دنوں جو سیاسی منظرنامہ اس وقت نظر آرہا ہے اور جو کچھ بننے جارہا ہے وہ کچھ اسی طرح کی عکاسی کررہا ہے کہ کس طرح سے عرصہ دراز سے مختلف بیماریوں کی وجہ سے بستروں سے چمٹے سیاستدان بھی ایک دم سے نہ صرف متحرک ہو گئے بلکہ پاکستان کی قسمت اور اس کی تبدیلی کو اپنی کوشوں سے جوڑنے لگے۔ خاص طور سے سابق صدر آصف زرداری کا عین بی بی کی برسی کے موقع پر گھڑی خدا بخش کو چھوڑ کر اسلام آباد چلے جانا، بہت ہی معنی خیز ہے۔ اسی طرح سے اچانک میاں محمد نواز شریف کی وطن واپسی کی باتیں کرنا، یہ سب کیا ہے، یقیناً یہ تبدیلیوں کے ہوائی جھکڑ چلنے کی وجہ سے تو نہیں ہونے جارہی ہیں۔ کہیں سے تو اشارے آئے ہیں، کوئی تو ہے جو یہ ساری ڈوریں ہلا رہا ہے۔۔۔؟ اور اب دھیرے دھیرے اس بات کی بھی سمجھ آرہی ہے کہ عمران خان کیوں آئی ایس آئی کے چیف کی تبدیلی میں حیل و حجت سے کام لے رہے تھے۔ ان تمام تبدیلیوں کا اندرونی اور بیرونی دباﺅس ے براہ راست یا بالواسطہ تعلق بتایا جاتا ہے۔ فی الحال تو عمران خان کی حکومت آئی ایم ایف کے شکنجے میں پوری طرح سے آئی ہوئی نظر آرہی ہے اور باقر رضا کو اسٹیٹ بینک کا گورنر بنانا اب خود عمران خان کی حکومت کو ایک طرح سے آئی ایم ایف کے ہاتھوں تباہ و برباد ہونے کا باعث بن رہا ہے۔ مبصرین کا کہنا کہ گورنر اسٹیٹ بینک کی حیثیت اس وقت وائسرائے والی ہو گئی ہے جو پاکستان میں رہتے ہوئے کسی کو بھی جواب دہ نہیں۔ وہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے یعنی پاکستانی خزانے سے سرکاری خزانے کے نقل و حرکت میں صدر اور وزیر اعظم کے جاری کردہ احکامات کو روک سکتا ہے، رد کرسکتاہے۔۔۔ یہ سب کیا ہے؟
کیا اس طرح سے پاکستان کی خودمختاری خود سوالیہ نشان نہیں بن گئی۔ آج پاکستان پولیس کے ویلفیئر فنڈز پر اسٹیٹ بینک نے قبضہ کرلیا ہے، کل پاک فوج کی تنخواہوں اور دوسرے دفاعی بجٹ پر بھی اسٹیٹ بینک اسی طرح سے قبضہ کرسکتی ہے، کیا یہ تمام تر صورتحال ٹیپو سلطان کے وزیر خزانہ، وزیر دفاع میر صادق کے دور کی یاد تازہ نہیں کررہی ہے کہ کس طرح سے اس وقت سلطان ٹیپو کے مخالفین نے ان وزیر خزانہ میر صادق کو قابو کرکے فوج کی تنخواہ روک کر عین جنگ والے روز تنخواﺅں کی ادائیگی کا اعلان کرکے فوج کو جنگ سے دور کردیا تھا۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ سب لمحہ فکریہ ہے ان پالیسی سازوں کے لئے جو اس سارے کھیل میں کہیں نہ کہیں شامل ہیں، یہ ملک صرف عمران خان کا نہیں ہے وہ آج وزیر اعظم ہیں۔ کل نہیں رہیں گے، فوج اور ملک اور اس کے رہنے والے کل بھی اس ملک میں تھے، آج بھی ہیں اور کل بھی رہیں گے، لیکن ملک دشمن اس وقت جو کچھ کررہے ہیں وہ نہ تو اس ملک کے ساتھ اچھا کررہے ہیں اور نہ ہی اس ملک کے عوام کے ساتھ۔ ملک آزادی اور خودمختاری اس وقت داﺅ پر لگی ہوئی ہے، ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو کراچی کی نسلہ ٹاور کی بے ضابطگی تو نظر آرہی ہے لیکن ملک کی خود مختاری جو اس وقت آئی ایم ایف اور گورنر اسٹیٹ بینک کے ہاتھوں جو داﺅ پر لگی ہوئی ہے وہ انہیں نظر نہیں آتی کہ وہ اس پر بھی کوئی سوموٹو نوٹس لے کہ آخر یہ حکمراں اور پالیسی ساز اس ملک کے ساتھ کیا کرنے جارہے ہیں؟ کس نے گورنر اسٹیٹ بینک باقر رضا کو ملکی قوانین سے مبرا کردیا ہے کہ وہ اپنے معاملات کے لئے کسی کو بھی جواب دہ نہیں، وہ تو کل پاکستان کے اعلیٰ عدلیہ کی تنخواہیں بھی روک دیں گے۔۔۔؟ پھر کیا ہو گا، کوئی انہیں روکنے یا ٹوکنے والا ہے کہ نہیں؟ ملک کی صورت حال بہت ہی زیادہ خراب ہوتی جارہی ہے۔ ملک کی مالی معاشی حالت اتنی زیادہ خراب ہے کہ ملک میں معاشی انقلاب کے آئے بغیر آئی ایم ایف کے شکنجے سے وطن عزیز کو نکالنا ممکن نہیں ہوگا اس کے لئے ملک کے پالیسی سازوں کو سرجوڑ کر کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔ حکمراں بدلنے سے انتخابات کروانے سے یہ مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ ملک میں موجود ان مافیاز کے خلاف ایک اس طرح کے بے رحم آپریشن کرنے کی ضرورت ہے جو ملکی قوانین سے ماروا ہو یعنی اس آپریشن کے زد میں آنے والوں کو ملکی عدلیہ سے کسی بھی طرح کا ریلیف نہ مل سکے۔ ملک کے اندر لوگوں کے پاس لوٹی جانے والی اتنی رقم موجود ہے کہ ملک کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کی ضرورت ہی نہیں۔ اور نہ ہی اپنی خود مختاری کا جنازہ نکالنے کی۔ اس کے لئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے اور اسٹیٹ بینک کے اس بیماری یعنی گورنر کو نکال باہر کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو اب کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے، اس سے قبل کے وقت ہاتھ سے نکل جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں