پاکستان میں کئی قسم کے تعلیمی نظام ہیں۔ برطانوی طرز کی تعلیم، امریکن اسکولوں کی تعلیم، پاکستان کے گورنمنٹ اسکول اور پھر مدرسہ اسکول جہاں قرآن و حدیث کی روشنی میں طالبعلموں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ جہاں تک برطانوی اور امریکی اسکولوں کا تعلق ہے وہاں تو غریب پاکستانی کے بچے کے لئے تعلیم حاصل ایک خواب ہے ہاں کلفٹن برج کی دوسری جانب رہنے والے پاکستانی انہی اسکولوں میں اپنے بچوں کو بھجواتے ہیں جب کہ دیگر چھوٹے چھوٹے اسکول ملک کے دوسرے علاقوں میں موجود ہیں جہاں اب تعلیم سے زیادہ فیس کے حصول پر توجہ دی جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بھی اب ایک انڈسٹری کی صورت اختیار کر چکے ہیں اور آج یہ ایک منافع بخش بزنس بن چکا ہے۔ حکومت کی ہدایت کے باوجود ان اسکولوں نے اپنی فیس کم کرنے کے بجائے دیگر حیلہ بہانوں سے ہزاروں روپے والدین سے بٹور لئے جاتے ہیں اور والدین اس خوف سے اپنی زبان بند رکھتے ہیں کہ کہیں ان کے بچے کو اسکول انتظامیہ انتقام کا نشانہ نہ بنائے۔ یوں اسکول انتظامیہ کی بلیک میلنگ بڑھتی جارہی ہے۔ جسے لگام دینے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب گورنمنٹ کے اسکولوں کی زبوں حالی نہ قابل تحریر ہے۔
ہماری حکومتیں گورنمنٹ اسکولوں پر کوئی بجٹ خرچ نہیں کرتیں بلکہ کچھ پرائیویٹ لوگوں نے کچھ گورنمنٹ اسکولز بلڈنگ کو اپنی تحویل میں لے کر اور حکومت سے ایک معاہدہ کے تحت اپنی مدد آپ کے ذریعے چلانے کا نیک کام کر رکھا ہے یوں کئی ایک گورنمنٹ اسکول غریب بچوں کو تعلیم دینے کا اہم کام سر انجام دے رہے ہیں۔ رہا سوال مدرسہ اسکول کا تو وہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں بچوں کو ایک ان پڑھ اور جاہل مولوی کے حوالہ کردیا جاتا ہے اور وہ ان مولویوں کے تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ آئے دن معصوم بچوں کی ویڈیو وائرل ہوتی رہتی ہیں جن میں یہ مولوی حضرات نہایت سفاکانہ طریقہ سے معصوم بچوں کو اس قدر مارتے ہیںکہ ذی ہوش اور ذی شعور شخص برداشت نہیں کرسکتا اور یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ ذہنی طور پر پسماندہ ملا حضرات اپنی فرسٹریشن ان بچوں پر نکالتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان بچوں پر جنسی تشدد بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
قرآن حکیم کی تعلیم کے دوران یہ مولوی حضرات معصوم بچوں سے کیسے کیسے گندے کام کرواتے ہیں جو ناقابل تحریر ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ اسکولوں میں فیس کے معاملہ پر توجہ دے اور اسکول انتظامیہ کو چیک کرے اور ایسے اسکول جہاں والدین کے ساتھ زیادتی ہورہی ہو یا بے جا فیس کا بوجھ ڈالا جارہا ہو ان اسکولوں کے خلاف انکوائری ہو اور ذمہ دار اسکول انتظامیہ کے اوپر جرمانہ عائد کیا جائے یا ایسے اسکولوں کے لائسنس منسوخ کئے جائیں۔ دوسری جانب مدرسہ اسکولوں کا کوئی قانون مرتب کیا جائے تاکہ مدرسہ میں پڑھنے والے معصوم بچوں کو مولویوں کے ظلم و جبر سے نجات مل سکے۔
350