بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 311

پاکستان کا اللہ حافظ

پاکستان ٹائمز نے اپنے سابقہ شمارے میں شہ سرخی میں لکھا تھا کہ ”حکومت مخالف تحریک کا دھڑن تختہ“۔ وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، جب غیر فطری اتحاد ہوں گے، لوگوں میں مفادات کی جنگ ہو گی، ہر پارٹی اور ہر صوبہ عصبیت کی نگاہ سے چیزوں کو دیکھے گا۔ تو پھر یہی کچھ ہو گا جو ہو رہا ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ جو کھیل قیام پاکستان سے لے کر آج تک کھیل رہی ہے اور جس کے نتیجہ میں ہمیں نواز شریف اور آصف زرداری جیسے چور اُچکے تحفہ میں ملے ہیں اُس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ انہیں عوام پر لا کر مسلط کرنے والے خود بہت بڑے چور اور بدنیت ہیں جو ملک میں ہمیشہ کمزور جمہوریت کے حق میں رہے ہیں اور یوں مختلف لالچی چہروں کو سامنے سجا کر خود مکھن ملائی کھانے کا فریضہ دہائیوں سے سر انجام دیتے دیتے ملک کو بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے۔
پاکستان کو دولخت کرنے کے باوجود رہے سہے ملک کو بھی اپنے مفادات اور لالچ کی بھینٹ چڑھا دیا اور آج دنیا بھر کے سفید ہاتھی پاکستان کی جانب نظریں گاڑے گدھ کی طرح للچائی نظروں سے انتظار میں ہیں کہ کب پاکستان کی معدنیات اور معاشیات کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لیں۔
آغاز ہو چکا ہے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی گردن میں طوق ڈال دیا گیا ہے۔ یوں آہستہ آہستہ رکابیں تنگ کی جارہی ہیں اور پاکستان جو کہ سی پیک کے ذریعہ دنیا بھر سے جڑنے جا رہا تھا اور جہاں کی عوام روشن مستقبل کے خواب دیکھنے لگی تھی ایک بار پھر اندھیروں کی جانب دھکیلی جارہی ہے۔ چائنا بھی پاکستان کی پالیسیوں اور اندرونی خلفشار سے نالاں دکھائی دیتا ہے۔ نہ جانے مستقبل میں پاکستان کا نقشہ کیا ہوگا۔ یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے مگر حالات بہتر ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ کل تک جن حکمرانوں کو ایوانوں سے کرپٹ اور چور کہہ کر نکلوا دیا گیا تھا انہی سے دوبارہ سازباز کرلی گئی ہے۔ دو بڑے ڈاکوﺅں میں سے ایک کو ساتھ ملا کر دوسرے کو ٹھکانے لگانے کا کام جاری ہے مگر ڈرامہ کا اسکرپٹ لکھنے والے یہ بھول رہے ہیں کہ ایک غیبی طاقت وہ بھی ہے جو فائنل اسکرپٹ لکھتا ہے مگر وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھاﺅ۔ عوام خاموشی سے ظلم و جبر سہہ رہی ہے اور اپنے خلاف ہونے والے مظالم پر اُس میں کوئی تحریک پیدا نہیں ہو رہی جس کے سبب ملکی حالات بگڑتے جارہے ہیں۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ کوئی منہ میں نوالا نہیں ڈالتا۔ حالات بہتر بنانے کے لئے گھر سے نکلنا پڑتا ہے۔ زندگی میں آرام اور سکون کے لئے بے سکون ہونا پڑتا ہے۔ جہد مسلسل ہی کے نتیجہ میں قومیں اپنے حالات زندگی بہتر بناتی ہیں۔ پاکستانیوں کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ شخصیتوں کے بجائے اصولوں کی سیاست کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہوں اور حب الوطنی کے جھوٹ اور فریب سے باہر نکلیں، یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ انہیں کہاں کہاں اور کیسے بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ وہ لوگ جو حالات کو سمجھ رہے ہیں اگر آج وہ بھی خاموش رہے تو پھر کل ان کا بھی نہیں ہوگا۔
پاکستانیوں کو ایک قوم بن کر سوچنا ہو گا کہ اُن کے ملک کی پالیسیاں کس جانب جارہی ہیں اور اُن کے لئے کیا بہتر ہے؟ باہر نکلنا ہو گا سوال کرنا ہوگا۔ اپنے حقوق کے لئے جنگ لڑنا ہوگی۔ اپنی نئی نسل کے لئے مملکت خداداد پاکستان کی زمین کو ہموار کرنا ہو گا۔ وگرنہ اگر یوں ہی فیوڈل لارڈز اپنے لوگوں کے ووٹوں کو بوریوں میں بند کرکے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہے اور اسمبلیوں میں آتے رہے تو پھر آئندہ آنے والے دنوں میں ہمارے ایوانوں میں صرف اور صرف سوداگر ہی ملیں گے، قانون بنانے والے نہیں۔ آج ہمارے عدالتیں ہوں یا میڈیا ہاﺅس یا بزنس کمیونٹی سب اپنے اپنے مفادات کے ایندھن میں جل رہے ہیں اور اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ یہ ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ وہ اس بات سے بھی بے خبر ہیں کہ وہ ایک ایسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں جس پر اس کا اپنا بسیرا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں