عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 232

پاکستان کی خودمختاری خطرے میں!

افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال کے نتیجے میں پاکستان پر دباﺅ آنا تو ایک فطری امر تھا ہر کسی کو اس خدشے کا یقین تھا کہ امریکہ بہادر اپنی سیاسی اور عسکری ناکامی کا ملبہ کسی نہ کسی طرح سے پاکستان پر بھی گرائے گا اور وہ پاکستان کو کسی نہ کسی طرح سے نفسیاتی دباﺅ میں لانے کے لئے کوئی نہ کوئی ہتھکنڈہ ضرور استعمال کرے گا اور وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، امریکی سینیٹرز نے جو سمری تیار کی ہے اس نے ایک خوفناک قانون کی شکل اختیار کرنی ہے یعنی پاکستان کو بلیک میل کرتے ہوئے پابندیاں لگانے پر غور کیا جارہا ہے ایک طرح سے پاکستان کو ایک بار پھر ”ڈو مور“ کی جانب لایا جارہا ہے جس طرح سے ماضی میں پاکستانی سیکورٹی فورسز کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے جس کی عمران خان نے بھرپور مخالفت کی تھی اب امریکہ عمران خان کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے ان سے وہی کام لینا چاہتا ہے جو وہ پرویز مشرف یا نواز شریف اور زرداری سے لیتے رہے ہیں۔ اسی مقصد کے لئے انہیں اپنے اس آسان ترین کام کے لئے اپنی پوری سینیٹ کو زحمت دینا پڑی کیونکہ انہیں معلوم تھا؟ کہ عمران خان کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے ان سے آسانی کے ساتھ کام نہیں لیا جا سکتا اسی وجہ سے انہیں قانونی راستہ اختیار کرنا پڑا تاکہ عمران خان ٹوئیٹس کے ذریعے پورپی عوام کو حقائق بیان کرکے ان کے حکومتوں کے خلاف استعمال نہ کرسکے۔
سوشل میڈیا کی عالمی سطح پر خرابی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی بتائی جاتی ہے، امریکی پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ اگر انہوں نے اس وقت پاکستان پر کوئی غلط فرمائش یا حکم مسلط کرنے کی کوشش کی تو عمران خان یقیناً اس کی مزاحمت کریں گے اور انہیں اپنے عسکری اداروں کی مکمل سرپرستی حاصل ہے جس کی وجہ سے دنیا کی بڑی طاقتوں کو پاکستان سے حسب منشاءاپنا کام لینے میں غیر معمولی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عالمی طاقتیں اس وقت پاکستان، چین، ترکی اور روس کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی چالوں میں مصروف ہیں اور اس میں ان کی نظر میں سب سے کمزور حدف پاکستان ہے اسی وجہ سے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگوانے کا حربہ استعمال کیا جارہا ہے اس طرح سے کرکے یہ طاقتیں پاکستان کو اس اتحاد سے الگ کرنے کی کوششیں کررہی ہیں جو خود موجودہ سپرپاور کے لئے سب سے بڑا خطرہ بنتا جارہا ہے جب کہ اس موجودہ صورتحال پہ خود چین، روس اور ترکی کی بھی گہری نظر ہے سب کے اس وقت عمران خان سے رابطے ہیں، افغانستان میں جو بھی کچھ ہوا وہ خود امریکہ اور انڈیا کی ناقص حکمت عملی کا نتیجہ تھا جس کی وجہ سے انہیں ایک نہ ایک روز اس ہزیمت کا سامنا کرنا تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی اس ناکامی اور رسوائی کا ملبہ پاکستان پر گرا دیا اور الزام لگایا ہے کہ امریکہ نے پچھلے دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے مدد کرنے پر انہیں بہت بڑی فنڈز دی ہے لیکن افسوس کے وہ فنڈز دوسری جگہ خرچ کی گئی جس کے نتیجے میں طالبان ختم نہیں ہوئے بلکہ وہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط بن کر ابھرے ہیں۔
امریکی سینیٹرز اس کا بالواسطہ یا براہ راست طور پر ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہیں جو کہ قانونی اور اخلاقی لحاظ سے درست نہیں، غیر ملکی دفاعی تجزیہ نگاروں کا یہ خیال ہے کہ بری طاقتیں اپنے اس مقصد میں کسی حد تک بھی جا سکتی ہیں اگر عمران خان کی حکومت حسب روایت ان کی خواہشات کے آگے سیسہ پلائی دیوار بننے کی کوشش کرے گی تو اس کے لئے پھر پاکستان میں سیاسی افراتفری پھیلانے اور خون خرابہ کروانے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا اور عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لئے ہر حربہ اختیار کیا جائے گا کیونکہ غیر ملکی قوتوں کے پاس اب اپنے اہداف حاصل کرنے کے لئے بہت ہی کم وقت بچا ہے۔
2023ءبھی قریب آرہا ہے جو ترکی آزادی کا بم ہے جس کے پھٹنے سے عرب دنیا بالخصوص اور مغربی دنیا بالعموم بہت ہی بری طرح سے متاثر ہوگی اس وجہ سے اسے روکنے کے لئے پاکستان کو اپنے گروپ میں لانا اور اپنے اشاروں پر چلانا بڑی طاقتوں کے لئے بہت ضروری ہو گیا ہے، چاہے اس مقصد کے لئے انہیں چین اور روس سے ٹکرانا ہی کیوں نہ پڑ جائے؟ اس وجہ سے ہرگزرتے ہوئے دن کے ساتھ پاکستان پر ہر طرح کا دباﺅ بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے ایک طرح سے کھلی بلیک میلنگ اور بدمعاشی کی جارہی ہے، پاکستان سے اس کی خودمختاری دوبارہ سے چھیننے اور یرغمال بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ملک میں مہنگائی کا یہ بڑھتا ہوا طوفان اور ڈالر کی قیمت کا اچانک بڑھ جانا اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں اگر یہ کہا جائے پاکستان اس وقت بہت ہی نازک ترین صورتحال سے گزر رہا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ایسے میں پاکستان کا کرپٹ زدہ نظام نیب زدہ اپوزیشن اور ان کی مددگار میڈیا نے ملک دشمن قوتوں کا کام اور بھی آسان بنا دیا ہے ہر کسی نے ضمیر برائے فروخت کا لیبل اپنے اوپر چسپاں کرلیا ہے، ہر کوئی اقتدار کا بھوکا ہے، وہ اقتدار کی خاطر ہر کچھ کرنے کو تیار ہے، اس طرح کی صورتحال میں ریاست اور حکومت کا کام اور بھی مشکل ہو گیا ہے اس طرح کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے ریاست اور حکومت کو اپنے اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک اور ایک گیارہ بن کر بیرونی اور اندرونی دونوں دشمنوں کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔
وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ اپنے عزائم اور اصولوں پر ڈٹے رہیں اور کسی بھی حال میں اپنی خودمختاری اور خارجہ پالیسی پر سمجھوتہ نہ کریں اور نہ ہی کسی کی خواہشات کی تکمیل کے لئے دوسروں کی جنگ کا حصہ بنیں، وہی کام کریں جو عالم اسلام اور خود ریاست پاکستان کے مفاد میں ہو، ان ہی ملکوں کے اتحاد میں شامل ہو جو پاکستان کی سلامتی کے خواہ ہو ان دوست نما دشمنوں سے محتاط ہونے کی ضرورت ہے جو اپنے مفاد کے لئے پاکستان کے قریب آجاتے ہیں۔ انکاری ہو جاتے ہیں، یہ پابندیاں سب ڈھکوسلے کے سوا اور کچھ نہیں اس سے گھبرانے یا ڈرنے کی ضرورت نہیں، یہ زمانہ سوشل میڈیا کا ہے، دنیا کے عوام کو عالمی شیطانوں کے مجرمانہ اور ظالمانہ عزائم سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد ہی انہیں ان کی ان شر انگیزیوں سے روکا جا سکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں