بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 364

پاکستان کی عدلیہ

پرانی مثال ہے کہ ”جج نہیں اُن کے فیصلے بولتے ہیں“ مجھے یاد ہے کہ ایک زمانہ تھا کہ عدالت میں بیٹھے جج صاحبان لوگوں سے گھلتے ملتے نہیں تھے اور اُن کے فیصلوں میں کہیں نا انصافی کی بُو نہیں آتی تھی مگر پھر ترقی کرتے کرتے ہم وہاں آگئے جہاں نظریہ ضرورت کے تحت وہ کچھ ہوا جس کا تصور بھی محال ہے۔ ہمارے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس صاحبان کا ذکر کرنا یہاں ضروری سمجھتا ہوں جس میں ایک جسٹس افتخار محمد چوہدری جنہوں نے اپنی برطرفی پر پوری ایک تحریک چلائی جس کے روح رواں اعتزاز احسن تھے۔ انقلابی نعرے اور فیض احمد فیض کی شاعری پورے ملک میں گونجتی رہی اور وکلاءکی بدمعاشیہ کے نئے باب کا آغاز ہوا یا یوں کہیئے کہ جج صاحبان اور وکلاءنے ایک نئی سیاسی پارٹی کو جنم دیا جو ان کے مفادات کا تحفظ کرے۔ جسٹس افتخار چوہدری اور ان کے صاحبزادے ارسلان افتخار، ملک ریاض اسکینڈل کا شکار ہوئے اور یوں ایک اعلیٰ عدلیہ کا جج جسے حق اور انصاف کا بول بالا کرنے کے لئے لایا گیا تھا۔ ٹکوں میں بک گیا اور اپنی مدت ملازمت پوری کرکے گھر چلا گیا۔
ان کے بعد دوسرے چیف جسٹس ثاقب نثار ڈیم پروجیکٹس کا نعرہ لے کر نمودار ہوئے اور بڑے بلند و بانگ دعویٰ کرکے اور ڈیم کے لئے سائٹ پر جھونپڑی بنا کر رہنے کا عزم کرکے دنیا بھر سے مال اکٹھا کیا اور پھر لندن کی شہریت لے کر اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان کو ہی خیرباد کہہ دیا۔
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جیسے عہدوں پر اس سوچ کے لوگ کیسے پہنچے اور انہیں یہاں تک لانے والے کس قماش کے لوگ ہیں۔ یہ سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں۔ یوں پاکستان کا پورا عدالتی نظام سیاسی نظام بن کر رہ گیا۔ نظریہ ضرورت صرف ججوں کی ضرورتوں کا ضامن ٹھہرا اور عام عوام برسوں سے اپنے کیسوں کے فیصلوں کے لئے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ نہ ججوں کی کمی کو پورا کیا گیا نہ عدالتی نظام کو شفاف کیا گیا بلکہ جن مجرموں کے واضح ثبوت بھی موجود رہے۔انہیں بھی عدالتوں نے بری کردیا۔ یوں اداروں میں جنگ کی صورتحال پیدا ہوگئی جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ آج وفاق اور عدلیہ آمنے سامنے ہے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے عدالت کے جج صاحبان کسی کو جوابدہ نہیں ہیں۔ کون صحیح اور کون غلط اس کا فیصلہ اس ملک میں شاید کہیں نہ ہو سکے کیونکہ ہر شخص اپنے حصہ کا مال بنانے میں مصروف ہے اور خوف خدا نام کی چیز صرف کہنے کی حد تک رہ گئی ہے۔ وگرنہ تو ظلم اور جبر کرنے والوں کی یہ ہمت کہ وہ عوام پر ظلم بھی کریں۔ اس کی ویڈیو بھی بنائیں۔ مگر اس کے باوجود عدالتوں سے باعزت بری ہو جائیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے مگر نا انصافی کی نہیں اور یوں اگر یہی حالات رہے تو پاکستان کو تباہی سے بچانا شاید کسی کے بھی بس میں نہ ہو۔ آج تو پاکستانی قوم ان نا انصافیوں پر چپ سادھے ہوئے ہے مگر یہ جوار بھاٹا اور یہ طوفان جس روز اٹھ گیا، یہ کسی کے قابو میں نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، بیوروکریسی، میڈیا اور مذہب اسلام کے فرعونوں کو نیست و نابود کرے اور پاکستان کو قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر بنائے۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں