ایم کیو ایم اور مہاجروں کے رہنما حیدر عباس رضوی نے بیانات میں اپنے موقف کو بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ کراچی کو اور اربن سندھ کے علاقوں پر مشتمل سندھ میں ایک اور صوبہ تشکیل دیا جائے لیکن ہمارے خیال میں یہ مطالبہ اندرون سندھ کے مظلوم سندھیوں کے مفاد میں بالکل نہیں ہے۔ حیدر عباس رضوی کے دلائل میں بہت وزن ہے ہم اس کی قدر بھی کرتے ہیں اور اس کی مخالفت بھی۔ حیدر عباس رضوی کی ایک سب سے بڑی دلیل یہ بھی تھی کہ گزشتہ پچاس سالوں سے ہم نے سندھ کے وڈیروں کے ساتھ مل کر کوششیں جاری رکھیں کہ مہاجروں کے ساتھ ساتھ اندرون سندھ کے غریب عوام کو ان وڈیروں کے ظلم و ستم کو بھی نجات دلائی جائے۔ یا اس میں کچھ حد تک کمی کی جا سکے۔ قیام پاکستان سے پہلے سندھ میں اکثریت ان ہندوﺅں کی تھی جو کہ سندھ کے وسائل پر قبضہ کئے ہوئے تھے انہوں نے ان وسائل کو سندھ کے چند مخصوص وڈیروں کے ساتھ مل کر سندھی مسلمانوں کو جس طرح جبر و استبداد کا نشانہ بنایا ہوا تھا ان کے جانے کے بعد تمام وسائل پر ان وڈیروں نے سیاست کے نام پر قبضہ کرکے سندھ کے تمام مظلوم عوام پر بھی اس ہی طرح کے ظلم و ستم کو جاری رکھا۔ جب سندھ کے شہری علاقوں میں ترقی کے مراحل شروع ہوئے تو انہوں نے شہری علاقوں کے عوام کو بھی اس ہی طرح سے اپنے غاصبانہ قبضہ میں لینا شروع کردیا جس طرح انہوں نے اندرون سندھ کے عوام کو جکڑ کر رکھا ہوا تھا۔
یہ وڈیرے مختلف پارٹیوں میں پھیل کر معصوم عوام کو ورغلا کر اپنا ہم نوا بنا لیتے۔ مختلف نعروں سے بہلا پھسلا کر حمایت حاصل کرتے، کبھی وہ جئے سندھ کا نعرہ لگاتے، کبھی وہ جئے بھٹو کا نعرہ لگاتے، چالیس سال تک وہ اندرون سندھ کے عوام کو بھٹو اور سندھ کے خواب دکھا کر ان کے وسائل پر قبضہ کرکے ان کو بیرونی ممالک میں اپنے محلات بنا کر اور اپنے بچوں کو وہاں آباد کرکے ان وسائل کو سندھ کے عوام پر استعمال کرنے کے بجائے اپنے ذاتی مقاصد پورے کرتے رہے۔ چالیس سال تک لوٹتے رہے۔ اب سندھیوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی مہاجروں کی طرح اپنی طرز فکر کو تبدیل کریں جس طرح مہاجروں نے اپنی اس قیادت کو قربا کیا جن کے لئے انہوں نے ووٹ کے ساتھ ساتھ نوٹ بھی دیئے اور جب بھی انہوں نے خون مانگا اپنا خون دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ جب وقت اور حالات نے ان کی آنکھیں کھولی تو انہوں نے اپنے پیارے سیاسی حکمرانوں کو خیرباد کہا۔ اس ہی طرح اب سندھیوں کو یہ دیکھنا چاہئے کہ ان وڈیروں نے گزشتہ چالیس سالوں میں ان کے طرز زندگی میں کس حد تک بہتری پیدا کی تو ان کو اندازہ لگا لینا چاہئے کہ ان وڈیروں نے جنہوں نے مختلف پارٹیوں میں پیپلزپارٹی سمیت پر کتنا بھروسہ کیا۔ جواب میں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ ان وڈیروں نے ایک طرف بھٹو خاندان کے ناموں کو استعمال کرکے اور سندھیوں کے نام پر حقوق حاصل کرنے کے نعرہ لگا کر اٹھارویں ترمیم کا سہارا لیا یوں سندھ کے نام پر وفاق سے تمام وسائل حاصل کئے۔ دوسری طرف ان وسائل کو اپنے سندھی بھائیوں پر خرچ کرنے کے بجائے خود اپنی تجوریاں بھرنی شروع کردیں۔
سندھی عوام گزشتہ چالیس سالوں سے پسماندگی کے سمندر میں ڈوبتے چلے گئے۔ اسی طرح اربن سندھ کے غیر سندھیوں کو بھی اپنے زیر تسلط رکھنے کے لئے ان کو مختلف شعبوں میں داخل ہونے سے روکتے رہے، یہاں تک کہ سندھ کے ہر شعبہ زندگی میں ان کے لئے دروازے بند کر دیئے، انہوں نے ان کی نمائندگی کم ظاہر کرنے کی خاطر مردم شماری میں ان کی آبادی کو کم سے کم ظاہر کرکے ان کو اسمبلیوں میں بھی نمائندگی کا تناسب اتنا کم کردیا کہ وہ ان کی اکثریت کو چیلینج نہ کرسکیں اس طرح انہوں نے اندرون سندھ کے قدیم باشندوں کے ساتھ ساتھ اربن سندھ کے غیر سندھیوں پر بھی اپنا تسلط قائم کرلیا۔
اب یہ آخری موقع پھر سندھ کے قدیم سندھیوں کے ہاتھ میں آیا ہے کہ جس طرح مہاجروں نے اپنی قیادت کی قربانی دے کر سندھ کے بڑے شہروں سے ان کا غلبہ ختم کیا اس ہی طرح ان سندھی باشندوں کو بھی چاہئے کہ وہ پیپلزپارٹی کے معاشی دہشت گردوں سے لاتعلقی ظاہر کرکے بھٹو کے نام کیلاج رکھیں اور سندھ کی دھرتی کو تقسیم ہونے سے بچائیں۔ پیپلزپارٹی کے معاشی دہشت گرد جنہوں نے گزشتہ چالیس سالوں میں جس طرح لوٹ کھسوٹ کرکے سندھ کے وسائل کو لوٹا اور سندھ کے عوام کو پسماندہ رکھا اسی طرح انہوں نے غیر سندھیوں کو بھی سندھ کے وسائل سے دور رکھا جس کی وجہ سے اب سندھ میں غیر سندھیوں میں یہ احساس شدت سے بڑھتا جارہا ہے کہ اب سندھ میں ان کا حصہ الگ صوبے کی صورت میں ہی ملنا چاہئے۔ جس طرح قیام پاکستان سے پہلے انتہا پسند ہندﺅں نے جب مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھنے کے لئے ان کی اس تجاویز کو مسترد کیا جس میں وہ ہندوستان میں رہتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرلیں۔ جب وہ اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے میں مایوس ہو گئے تو انہوں نے ہندوستان کو تقسیم کرنے کی کامیاب مہم چلائی اور اپنے لئے ایک نیا ملک حاصل کیا۔ قدیم طور پر پاکستان کے علاقے ہندوستان کا ہی حصہ تھے لیکن مسلمانوں نے اپنا خون بہا کر پاکستان کی منزل حاصل کی۔ اس ہی طرح اگر سندھ کے قدیم باشندے سندھ کی تقسیم نہیں چاہتے تو وہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ غیر سندھیوں کے جائز حق کی خاطر ان پیپلزپارٹی کے وڈیروں سے نجات حاصل کرنے میں سب کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ سب سے پہلے ان ڈھیٹ حکمرانوں کو مسترد کرکے اپنے حقیقی قوم پرستوں کو منتخب کریں جو کہ ان وڈیروں کے مقابلے میں سندھ کے حقیقی مسائل کا زیادہ ادراک رکھتے ہیں۔ اس ہی طرح عسکری حکام کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح انہوں نے ملک اور بالخصوص کراچی سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا ہے اس ہی طرح سندھ کے ان پکّے کے ڈاکوﺅں سے بھی عوام کو نجات دلائیں۔
یہ سندھ کے عوام کے ساتھ ساتھ عسکری حکمرانوں کی ذمہ داری ہے جس طرح انہوں نے فاٹا اور خیرپختونخوا میں کامیاب آپریشن کئے اور وہاں کے عوام کے لئے بنیادی وسائل فراہم کئے اور وہاں کے عوام کے اعتماد میں اضافہ کرکے نیک نامی حاصل کی اس ہی طرح وہ سندھ کو ان سفاک نا اہل اور کرپٹ حکمرانوں سے نجات دلائیں۔ گزشتہ 12 سال تمام وسائل ان کرپٹ حکمرانوں کے حوالے کرکے دیکھ لیا کہ کس طرح انہوں نے ان وسائل کو نہ صرف لوٹا بلکہ لانچیں بھر بھر کے بیرون ملک اپنے بچوں کے پاس پہنچایا۔ اب عسکری حکمران کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ جس طرح کراچی میں آپریشن کرکے کراچی کو پرامن بنایا
ہے اس ہی طرح سندھ کے عوام کو ان معاشی دہشت گردوں سے نجات دلائیں جو پکّے کے ڈاکو ہیں تاکہ سندھ کی تقسیم سے پیدا ہونے والی متوقع خون ریزی سے سندھ کو محفوظ رکھا جا سکے پھر سندھ میں اس ہی طرح کا آگ اور خون کا کھیل شروع نہ ہو جائے جس کے خاتمے کے لئے ان کے ساتھ ساتھ ملک کے عوام نے بے تحاشہ قربانیاں پیش کیں۔ جس میں کراچی، حیدرآباد، سکھر، میرپور خاص کے غیر سندھیوں نے بھی اس قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ سندھ کے اربن علاقوں کے عوام عدلیہ سے التماس کرتے ہیں کہ وہ ضروری قانون سازی کے لئے اس طرح کے احکامات دیں جس طرح ملک میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تاکہ مقامی حکومتوں کو مکمل اختیارات حاصل ہو سکیں۔ فوری طرح پر تمام محب وطن جماعتوں سے گزارش ہے کہ پارلیمنٹ میں ایسا بل لائیں کہ مقامی حکومتوں کو بھی اس ہی طرح کے اختیارات حاصل ہو جس طرح صوبائی حکومتوں کے پاس ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملک میں ایک نیا بحران سے بچنے کی خاطر ہنگامی طور پر ایسے اقدامات کریں۔ سندھ میں نئے صوبے کے نام سے ہونے والی خون ریزی اور بے چینی کو روکنے کی خاطر اس نظام کو خیرباد کہنا پڑے گا۔ جس طرح مہاجروں نے اپنی سابقہ قیادت کو خیرباد کہہ کر اپنے ملک کے تمام طبقوں کا ساتھ دیا اور ثابت کیا کہ وہ ملک کی خاطر اپنی سب سے عزیز متاع کو بھی قربان کر سکتے ہیں۔ اب یہ فیصلہ کرنا سندھ کے قدیم سندھیوں کے ساتھ عسکری حکام کے ہاتھ میں ہے کہ وہ سندھ کی تقسیم پر ہونے والی بے چینی کو کس طرح قابو رکھ سکتے ہیں۔ اب دو ہی راستہ ہیں، سندھ کے تمام باشندوں کو یکساں حقوق فراہم کئے جائیں یا پھر سندھ کی تقسیم کے لئے تیار ہو جائیں۔ جس میں ہر طرف خلفشار ہی خلفشار دکھائی دے رہا ہے۔ سندھ میں کچے کے ڈاکوﺅں کے خلاف تو بارہا آپریشن کئے گئے اب وقت آگیا ہے کہ سندھ کے پکے کے علاقوں یعنی اربن کے ڈاکوﺅں کے خلاف آپریشن کرکے سندھ کے تمام باشندوں کو ان پیپلزپارٹی کے وڈیروں سے نجات دلا کر ان کے تمام حقوق واپس دلوائے جائیں۔ آنے والا وقت خطرے کی گھنٹی بڑے دور سے بجا رہا ہے۔ خدا کے لئے اس کو سنئے اور عوام کی بے چینی کو دور کریں اور عوام کو ان پکے کے ڈاکوﺅں سے نجات دلا کر سندھ کی تقسیم کو روکا جائے۔ یہ آخری موقع ہے سندھ کے عوام سیاسی جماعتوں، عدلیہ کے ساتھ ساتھ عسکری حکمرانوں کے پاس۔
521