تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 438

پی آئی اے رے، پی آئی اے رے

وہ جب ہماری شفٹ کا اسٹیشن مینجر بن کر آیا تو اس نے اپنے جیسے ساتھیوں سے خطاب میں کہا کہ پی آئی اے تمہاری ماں کی طرح تمہارا خیال رکھتی ہے اس ماں کا دودھ پیو، خون مت پیو، یہ شخص خود پی ائی اے کا دودھ پیتے پیتے خون پینے کی کوششوں میں ادارے سے نکالا گیا تھا اور بعد میں سیاسی آزادیوں کے بعد نوکری سے بحال ہوا۔ ادارے کا خون پینے کی چیز صرف ہماری شفٹ تک ہی محدود نہیں رہی تھی، بلکہ پورے ڈیپارٹمنٹ میں ہی یہ خون پینے والی ڈائنیں موجود تھیں۔ جن کا تعلق زندگی کے ہر شعبہ کے طاقتور حکمرانوں کی پیداوار سے تھا۔ ان خون پینے والی ڈائنوں نے ملک کے ہر نظام میں شامل ہو کر اس کا دودھ پینے کے بجائے اس کا خون پینا شروع کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی نظام اس قدر بوسیدہ ہو چکا ہے کہ وہ کسی وقت بھی زمین بوس ہوسکتا ہے۔ جب پی آئی اے کا جہاز گرتا ہے تو سب کو نظر آتا ہے جس کی وجہ سے میڈیا میں بھی اس کی کارکردگی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ کی یہی صورت حال ہے، ہر شعبہ ہائے زندگی کا یہی حال ہے اس میں جب کوئی اس طرح کا واقعہ پیش آتا ہے تو ان کی جھلکیاں میڈیا میں کچھ عرصہ تک کے لئے دکھائی دیتی ہیں پھر تحقیقات کے قبرستان میں تمام ثبوتوں سمیت دفن کر دی جاتی ہیں۔
لیاقت علی خان کی شہادت کی تحقیقات کا جہاز کراچی حیدرآباد کے درمیان جنگ شاہی میں گرا کر خاک نشیں کردیا جاتا ہے یا حمود الرحمن کمیشن کو فوجی پریڈ میں سلامی دے کر قومی پرچم سمیت دفن کر دیا جاتا ہے۔ یا اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کی تحقیقات کو بھی اسامہ کے ساتھ سمندر میں غرق کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان اور پی آئی اے ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔ پاکستان کے حالات اور پی آئی اے کے حالات ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ پاکستان کے حالات کے براہ راست اثرات پی آئی اے پر پڑتے ہیں۔ پاکستان میں جیسی حکومت ہو پی آئی اے کے حالات اس کے مطابق ہو جاتے ہیں۔ فوجی حکومت ہو پی آئی اے کا سربراہ فوجی ہو جاتا ہے، اعلیٰ عہدوں پر فوجیوں کو متعین کیا جاتا ہے، چھوٹے عہدوں پر کچھ عرصہ تک میرٹ کےمطابق تعیناتیاں ہو جاتی ہیں، مزدوروں کے حقوق پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ مزدوروں کی یونینوں پر پابندی لگا کر ان کو من مانی سرگرمیوں سے بزور طاقت پابند کر دیا جاتا ہے۔
سیاسی حکومتوں کے دور میں اس کے برعکس ہوتا ہے مگر ادارے کا سربراہ کا تقرر اس ہی بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ وہ حکمرانوں کے فائدے کے لئے کس حد تک مفید ہے اس طرح مختلف عہدیداروں کو ان کی سیاسی وابستگی کے مطابق مراعات سے نوازا جاتا ہے۔ اس طرح کے سربراہوں کو متعین کیا جاتا ہے۔ سیاسی حکمرانوں ذاتی پسند کے مطابق سیاسی بھرتیاں نچلی سطح پر بے تہاشہ کرسکیں اس میں بھی اس چیز کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ مخالف سیاسی جماعت کے حامی عناصر کی بھرتی کسی صورت نہ ہو۔ پاکستان کے تمام اداروں کی طرح پی آئی اے میں بھی اہل عملہ اہم معاملات سے دور رکھ کر حکمرانوں سے وابستگی رکھنے والے عملے کے افراد کو اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹ اور سیکشن کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے جو کہ فیلے میرٹ پر کرنے کے بجائے حکمرانوں کی سیاسی اور فوجی پالیسیاں من مانے ادارے میں نافذ کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے نہ کہ ادارے کا مفاد جب پی آئی اے میں مارشل لاء52 نافذ کیا گیا تو اس وقت سیاسی وابستگیاں اپنے عروج پر تھیں۔ یوسیز اپنے اپنے سیاسی مقاصد پورے کرنے کے لئے ایک دوسرے سے دست و گریباں تھیں۔ مارشل لاء52 نافذ کرنے کے بعد فوجی اہلکاروں نے ان سیاسی وابسگتیاں رکھنے والے عناصر کو ادارے سے باہر نکال دیا۔ ان فوجی اہلکاروں نے بڑی بے دردی سے سیاسی اور کرپٹ افراد کو ادارے سے نکال کر وہاں جبر کا نظام قائم کر دیا یوں ادارہ ایک کمرشل ایئرلائن کے بجائے نیم فوجی ادارے کی شکل اختیار کر گیا۔ سیاسی حکومت کے قیام کے بعد ادارے میں ان تمام سیاسی اور بدعنوان عناصر کو پچھلی تمام مراعات کے ساتھ بحال کردیا گیا۔ اس طرح ادارے میں میرٹ کا رہا سہا عمل دخل بھی وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتا چلا گیا۔ میرٹ کے حامل افراد یا تو ادارے سے فارغ کر دیئے گئے یا وہ خود چھوڑ کر دوسری ایئرلائنوں کی طرف راغب ہو گئے۔ اپنے دیرینہ تجربات سے دوسری ایئرلائنوں کو اس مقام سے بھی بہت آگے تک لے گئے جہاں پر انہوں نے اپنی فرض شناسی کی بدولت پی آئی اے کو دنیا کی مثالی ایئرلائنوں میں پہنچایا۔ ان کی اس لیاقت اور دیانت نے دوسری ایئرلائنوں نے نہ صرف قدر کی بلکہ ان کو جائز مقام سے بھی نوازا۔ جہاں وہ اپنی قومی ایئرلائن میں محروم تھے۔ وہ ایئرلائن جو ایک زمانے میں پوری پی آئی اے کی خدمات حاصل کرکے بڑی ایئرلائنوں میں شمار ہوتی رہی ہیں، بجائے پی آئی اے کی مجموعی خدمات حاصل کرنے کے انہوں نے ان اہل فرض سیاسی عملہ کی انفرادی خدمات حاصل کرلیں جن کی خدمات کو پی آئی اے نے نظرانداز کرکے مایوسی کے سمندر میں دھکیل دیا تھا وہ افراد جو پی آئی اے میں میرٹ کے قتل عام پر اندر ہی اندر کڑھتے رہتے تھے اور ادارے کو تباہی کی جانب بڑھتا ہوا دیکھ رہے تھے وہ اہل لوگ دوسری ایئرلائنوں میں شمولیت اختیار کرکے دنیا کی ان دوسری ایئرلائنوں کو لاجواب ادارے میں تبدیل کررہے تھے۔ اس طرح دوسری غیر ملکی ایئرلائنوں نے ترقی کی منازل تیزی سے طے کرنی شروع کر دیں اور ملکی ادارے میں اقربا پروری میرٹ کی دھجیاں اڑانے والے آگے سے آگے آکر ادارے میں تباہی اور بربادی کا باعث بنتے چلے گئے۔ دیانت دار اور صاحب لیاقت عملہ ادارے کی اس بربادی پر کف افسوس ملتا رہا جس کو انہوں نے شب و روز کی محنت سے ایک وقت دنیا کی بہترین ایئرلائن بنا کر دکھایا تھا کہ کم وسائل کے باوجود پاکستان پی آئی اے کو دنیا کی بہترین ایئرلائن بنانے کی اہلیت رکھتا تھا۔
یہی حال پاکستان کے تمام اداروں کا ہے کہ جن اداروں کی دنیا بھر میں قدر و منزلت تھی وہ ادارے زندگی کے ہر شعبہ میں زبردستی مالی وسائل کے باوجود اپنی نا اہلیت کے باعث دنیا بھر میں کرپشن اور نا اہلی کی مثال بن گئے۔ اب بھی جب پی آئی اے میں کوئی حادثہ ہوتا ہے، کچھ عرصے کے لئے اس کی گونج سنائی دیتی ہے ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمار ہو جاتی ہے یہ بھی حقیقت ہے جو بھی الزامات لگے ہیں وہ سو فیصد درست ہوتے ہیں۔ جواب میں اپنی صفائی پیش کرنے کے دوسرے پر الزامات کی بھرمار ہو جاتی ہے۔
کراچی میں گرنے والے جہاز کی تباہی کے بعد بھی الزامات اور جوابی الزامات کی بھرمار ہو چکی ہے ایک طرف طیارے کے کپتان پر الزامات لگائے جارہے ہیں، الزامات سب کے درست ہیں بات صرف کپتان کی ہی نہیں پالپا کی ہے۔ بات صرف پالپا کی ہی نہیں پورے ادارے کی ہے۔ بات صرف کنٹرول ٹاور کی نہیں پورے سی اے اے یا سول ایوی ایشن کی ہے۔ پی آئی اے کا جہاز کا کپتان ہو یا پالپا ہو یا پورہ ادارہ ہو، ذمہ دار حکومت ہی ہے۔ چاہے ومجودہ ہو یا سابقہ۔ اسی ہی طرح اطراف کی عمارتوں اور ناجائز تعمیرات ہو ان کی ذمہ دار سندھ حکومت ہی ٹھہرائی جائے گی۔ مسافروں کے سامان سے تین کروڑ کی کرنسی ہو اس کا ذمہ دار ان مسافروں کو ٹھہرا جا سکتا ہے جنہوں نے غیر قانونی طور پر کرنسی کی ترسیل کی۔ اس طرح بحیثیت مجموعی تمام معاشرہ ہر تباہی و بربادی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں