امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے کارنامے 284

پی ڈی ایم بمقابلہ ریاست

اس وقت پی ڈی ایم بمقابلہ عمران خان کی حکومت نہیں بلکہ پی ڈی ایم بمقابلہ ریاست پاکستان ہے، لاہور کا پی ڈی ایم کا جلسہ بمقابلہ حکومت نہیں بلکہ ریاست کے تھا۔ اگر زندہ دلان لاہوریوں نے اس جلسہ کو ناکام کردیا تو یہ حکومت کی نہیں بلکہ ریاست پاکستان کی جیت ہے، لاہوریوں نے ایسا کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ اس طرح کے کسی بھی سیاسی پارٹی یا سیاسی قیادت کے ساتھ نہیں جو ملک کی وفادار نہ ہو جن کا بیانیہ ملک کو کھوکھلا اور دشمنوں کو فائدہ پہچانے کا باعث بنے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کی کوششوں اور میڈیا کے زبردست اور خوفناک تجزیوں اور تبصروں کے باوجود پی ڈی ایم کو لاہور کے مقام پر منہ کی کھانا پڑی۔ یہ ایک طرح سے ان تمام قوتوں کو محب وطن پاکستانیوں کا منہ توڑ جواب ہے جو ریاست پاکستان کے خلاف متحد ہیں۔
اس وقت ہندوستان کے کسان سراپا احتجاج ہیں جس سے بھارتی حکومت بہت ہی بُری طرح سے لرز چکی ہے، پوری دنیا سے بھارت پر لعن طعن کی جارہی ہے اور اس موقع پر بھارت کے کسان تحریک کو براہ راست اور بالواسطہ طور پر ہمسایہ ملکوں کے مدد کی اشد ضرورت ہے۔ اس موقع پر پاکستان کی اپوزیشن پارٹیوں کو چاہئے تھا کہ وہ اس کام میں حکومت پر سبقت لے جاتے ہوئے بھارتی کسانوں کی آواز میں اپنی آواز شامل کرتے لیکن افسوس کہ پاکستان کی اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے نہ تو خود اس طرح سے کیا اور نہ ہی عمران خان کی حکومت کو ایسا کرنے کا موقع دیا بلکہ کسانوں کی تحریک کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی تحریک میں بھی شدت پیدا کرلی۔ جس سے اس طرح کا تاثر ملتا ہے کہ ایک طرح سے بھارتی کسانوں کی تحریک کا کاﺅنٹر کرنے کے لئے ہی پی ڈی ایم نے اپنی تحریک میں تیزی لادی ہے اور اس پر لاہور کے جلسے میں محمود خان اچکزئی کا پنجابیوں کے خلاف تقریر کرکے ان کے حب الوطنی پر سوال کھڑے کر دینے نے صورت حال اور بھی خراب کر دی ہے جس سے اہل پنجاب میں محومد خان اچکزئی اور ان کی پارٹی سے زیادہ خود مسلم لیگ ن کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ ن نہ صرف پاکستان کے حوالے سے ملک دشمن ایجنڈے پر کام کررہی ہے بلکہ پنجاب کے حوالے سے بھی وہ دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔
”دیر آئے درست آئے“ کے مصداق اچھا ہوا کہ اہل پنجاب کے سامنے ان کے ہیروز کی اصلیت کھل کر سامنے آگئی کہ جنہیں وہ اپنا نجات دھندہ سمجھ رہے تھے، وہ نجات دھندہ نہیں بلکہ ان کے تباہی اور بربادی کے ذمہ دار ہیں ان کے ساتھ ساتھ ملک کے عوام کے سامنے دوسرے سیاسی جماعتوں خاص طور سے مذہبی جماعتوں کے سربراہوں کے اصل چہرے اور ان کے عزائم کھل کر سامنے آگئے۔ خاص طور سے وفاقی وزیر امین گنڈاپور کے وہ الزامات یا وہ سوالات جو انہوں نے قابل احترام مولانا فضل الرحمن سے پوچھے تھے جن کا تاحال انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا جو انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات ہیں۔ وفاقی وزیر نے مولانا پر مختلف ممالک کے حساس اداروں سے تعلقات رکھنے کے الزامات لگائے ہیں۔ اصولی طور پر ان سوالوں کے جوابات آنا بہت ضروری ہے، اگر مولانا جوابات نہیں دیتے تو اس کا صاف طور پر یہ مطلب ہو گا کہ وفاقی وزیر جو الزامات لگا رہے ہیں اس میں کسی نہ کسی شکل میں ضرور صداقت ہے۔ ملک کی سیاسی صورت حال روز بروز خراب ہوتی جارہی ہے، سیاسی درجہ حرارت بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے اور کسی بھی وقت جوالا مکھی پھٹنے والا ہے، اس دوران سینیٹ کے الیکشن کے قریب آرہے ہیں، یہ ایک اس طرح کے انتخاباتہوں گے جو عمران خان کی قانون سازی کے لحاظ سے کمزور ترین حکومت کے لئے اکسیر ثابت ہوں گے اور اس کے بعد عمران خان کی حکومت وہ تمام قسم کی قانون سازی میں خودمختار ہو جائے گی جس کے لئے اب انہیں اپوزیشن کے منت ترلے اور ان کی بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر سینیٹ کے الیکشن ہو جاتے ہیں اور مطلوبہ نتائج عمران خان کی پارٹی کو مل جاتے ہیں تو اس کے بعد ملک میں قانون سازی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور ملکی دولت لوٹنے والوں کے لئے اور بہت سخت قسم کی قانون سازی کر لی جائے گی اور بہت ساری اس طرح کی قانون سازی کو تبدیل کر دیا جائے گا جس سے ملکی خزانہ لوٹنے والوں کے لئے آسانیاں پیدا کر دی گئیں تھیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ ملکی عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لئے ریلیف دینے کا سلسلہ مزید بڑھا دیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں